کوئی تو ہو جو انصاف کرے

Jhang

Jhang

ٹی ایم اے جھنگ نے لاتعداد ٹینڈر کروائے جوکہ شہر میں ترقیاتی کام ہونے تھے۔ افسوس کہ اندھا راجا بے دار نگری ترقیاتی ٹینڈر ہوئے مگر شہر آج بھی ویرانی کا منظر پیش کررہا ہے کہ شہر میں کوئی ترقیاتی کام ہواہی نہ ہو۔ایسے کام ہوئے کہ ٹھیکیدار حضرات کام مکمل کر کے جاتے ہے تو کچھ دن بعد وہ گلی جس کو پی سی سی سلیپ کہتے ہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہے ایسے کام ہوئے یا ہو رہے ہے جیسے کہ آفسران نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہو۔ جھنگ ایک ایسا ضلع ہے جس میں اول تو کوئی آفیسر باہر سے آتا نہیں اور اگر ایک بار آجائے تو وہ دوبارہ اور کسی جگہ تبدیل نہیں ہوتا۔

جھنگ کی حالت ایسی ہے کہ جیسے اس شہر کا کوئی وارث ہی نہ ہو۔اگر شہر کے وارث ہوتے تو یہ جو تاریخی ضلع ہے اس کے ٹکڑئے کبھی نہ ہوتے جو اس ضلع کی تحصیلے ہوا کرتی تھی آج وہ ضلع بن گے یا ڈوثیرن مگر اس شہر پر کسی نے توجہ نہ دی ۔بس جو بھی آیا اس کے ٹکڑے کرتا رہا۔اوراب جو بچا ہے اس کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہے حران کن بات تو یہ ہے کہ سب کچھ افسران کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے مگر وہ خاموش ہے آڈٹ ٹیمے بھی آئی مگر کچھ نہ ہوا اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جوکہ مختلف محکوں میں عرصہ دراز سے ایک ہی سیٹ پر قبضہ کئے ہوئے ہے ان کا کوئی ٹرانسفر نہیں کرسکا۔

اگر کسی کا تبدلہ ہوبھی جائے توکچھ دن بعد وہ واپس اپنی سیٹ پر آجاتا ہے ٹی ایم اے جھنگ کا سب انجینیرحن رضا حیدری جوعرصہ تقریبا دس گیارہ سال کے بعد اپنی نوکری پر بحال بھی ہو گیا اس کو تنخوائیں بھی مل گئی کچھ اور اب تو لوکل گورنمنٹ میں ایس ڈی او کا چارج بھی اس کے پاس ہے ٹی ایم اے کے اکثر ملازمین نے اپنے عزیزاقارب کے نام پر فرمے بنا رکھی ہیں آج اگر کسی ملازم کی تنخواہ کو دیکھوں اور ان کے گھروں کے اخراجات ان کے بچے جوکہ ایسی زندگی گزار رہے ہے جیسے کہ یہ کسی مغل بادشاہ کی اولاد ہو ۔جھنگ محرم روٹز کے کام ہوئے ہے جو کہ انتہائی غیر معیاری اور ناکس مٹیریل استعمال عام کیا گیا ہے دوم اینٹ کا آزادنہ استعمال سیمنٹ کم ریت زیادہ لیکن پھر بھی ایسے ٹھیکیدار حضرات کے بل افسران بالا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر دستخط کر دیتے ہے کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ جاکر کام چیک کرلیے اس کے بعد بل بنائے۔

ہاں میں بات کر رہا تھا سب انجینیئر حسن رضا حیدری کی جو بغیر کسی تنخواہ کے ٹی ایم اے جھنگ میں دس گیارہ سال کام کرتا رہا ۔کیوں اس کو تو نوکری سے تو فارغ کر دیا گیا تھا۔لیکن نہ جانے کیا ہوا اور کسے ہو گیا کہ اس کو دس گیارہ سال کی تنخوائیں ملنے کے آرڈر کسے ہو گئے۔ جن میں سے آدھی تو اس نے وصول کرلی تھی اور بقایا کے لیے ہاتھ پائوں مارنے میں مصروف ہے اور تو اور نوکری پر بھی بحال ہو گیا اور اس کے بعد اس کو شہر کے کئی ترقیاتی کام دے دیئے گئے کہ تم سب انجینیئر ہو بنواو۔ افسران بالا کو نہ جانے اس میں کیا خصوصیات نظر آگئی ہے کہ اس کو اب لوکل گورنمنٹ کا ایس ڈی او کا بھی چارج دے دیا گیا۔مگر کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ کیا ہے اور اس کو نوکری سے کیوں فارغ کیا گیا۔

اس کے خلاف کئی اخبارت میں خبریں بھی شائع ہوئی مگر نتیجہ کہ اس کے خلاف کاروائی کی بجائے اس کو بحال کیا گیا اس کو تنخوائیں بھی مل گئی اور اب تو اس محکمہ لوکل گورنمنٹ کا چارج بھی دے دیا گیا ہے۔ افسوس صد افسوس۔ کیا ہمارئے ملک کا قانون صرف غریب لوگوں کے لیے ہے جس کے پاس شفارش نہ اس پاس ان کرپٹ لوگوں کو دینے کے لیے رشوت نہ ہو۔اس لیے ہر چکی میں پستا ہی غریب ہے آج ایسے غریب لوگ دھکے کھا رہے ہے جن لوگوں کے پاس ایم ۔اے ۔بی اے وغیرہ کی ڈگریاں ہے ان کے پاس شفارش نہیں یا نوکری پر لگنے کے لیے اس کے پاس رشوت دینے کے لیے پیسے نہیں اس لیے پڑھے لکھے لوگ کوئی مزدوری کررہا ہے کوئی چھابڑی لگا کر چھولے۔

Load Shedding

Load Shedding

پاپڑ وغیرہ سیل کر رہے ہے کیا یہ ہمارئے ملک کے نوجوان نسل کے لیے غربت مہنگائی گیس کی لوڈشیڈنگ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہر طرف مہنگائی ہی مہنگائی۔ گورنمنٹ کی طرف سے تو مہنگائی ہے ہی اوپر سے دوکاندار حضرات بلیک میں ہر چیز سیل کر رہے ہے قانون تو ہے ہی نہیں یہ ہے تحفہ۔آج گیس کی طرف ہی دیکھ لوں کہ سارا سارا دن گھروں میں گیس نہیں آتی۔وارڈنمبر ٥جھنگ شہر کا محلہ منشیا نوالہ کہارنوالہ۔ گلاب والا وغیرہ سہر فہرست ہے کہ ایک وال لگایا جانا تھا میلاد چوک جھنگ سٹی مگر نہیں لگایا گیا ۔جس کی وجہ سے صبح بچے سکول اور کالج میں بغیر ناشتے کے جانا پڑتا ہے دفتروں کے جانے والے بھی ملازم بھی بغیر کچھ کھائے جانا پڑتا ہے کیوں کہ اس علاقے میں کسی ایم ،این ،اے یا کسی بڑئے آفیسر کی رہائش نہیں۔

آج اگر یہاں کسی ایم این اے یا ایم پی اے وغیرہ کی رہائش ہوتی تو یہ مسئلہ کبھی نہ آتا۔لیکن افسوس کہ یہاں پر کسی اسی ہستائی کی رہائش نہیں جس کی وجہ سے عوام میں پریشانی کی لہر دوڑ رہی ہے آج اگر کوئی گیس کے دفتر دھکے کھا کھا کر رہے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آپ جی ایم کے پاس فیصل آباد چلے جائوان کو بتائو۔انہوں نے مسلہ حل کرنا ہے۔وہ اگر بول دیئے تو وال لگا دیا جائے گا۔ورنہ نہیں۔ہاں میں بات کر رہا تھا ٹی ایم اے جھنگ کی یہاں جس طرف دیکھوں ہر طرف مسلے ہی مسلے ہے مگر ان کا حل کسی نے نہیں کیا بلکہ مسلے بڑھتے جا رہے ہے کوئی تو ہو گا۔ جو جھنگ کی حالت کی طرف توجہ دیئے گا۔

اس ٹی ایم اے کے سب انجینیئر حسن رضا حیدری کی کون انکوائرئی کرئے گا کون۔کون اس سے پوچھے گا کے بحال کسے ہوا تنخوائیں کسے لی اور محکمہ لوکل گورنمنٹ کا ایس ڈی او کا اضافی چارج کسے ملا۔کوئی تو نیک اور ایماندارشخص ہو گا جو اس کی انکوائری کرئے گا۔

نوکری پر بحال ہونے کے بعد کام کیے ہے ان سب کو انکوائری رکھا جائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا یہ شخص قانون کو مذاق سمجھتا ہے اپنی مرضی سے آفس جانا اس نے اپنی بیٹھک کو ہی اس نے آفس بنا رکھا ہے۔ ٹھیکیدار حضرات سے اپنی کمیشن وصول کرکے بل بنا کر دستخط کر دینا اس کا مامول ہے کام جا کر چیک کرنا اس کی توہین ہوں۔ قانون کا تو یہ ہر وقت مذاق اڑاتا رہتا ہے۔

Shafqat Ullah Sial

Shafqat Ullah Sial

تحریر : شفقت اللہ سیال