تحریر: ایم ایم علی ایک دفعہ عیسائیوں کا ایک وفد اپنے بشپ کی سر برائی میں والئی مصر عمرو بن عاصکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی حضور آپ نے شہر کے چوک میں لگا ہوا یسوع مسیح کا مجسمہ دیکھا ہے تو عمرو بن عاص نے کہا ہاں دیکھا ہے کیوں کیا ہوا اس مجسمے کو ؟ تو بشپ نے کہا کہ کل رات کسی نے اس مجسمے کی ناک اڑا دی ہے عمرو بن عاص نے استفسار کیا کہ تمھارے خیال میں یہ حرکت کس نے کی ہو گی تو بشپ نے کہا کہ ظاہر ہے کہ کو ئی عیسائی تو یہ کام کر نہیں سکتا یہ کام کسی مسلمان کا ہے۔
عمروبن عاص نے کہا کہ ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام میں بتوں کی پوجا نہیں کی جاتی بلکہ اس کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن اسلام کسی دوسرے مذہب کے معبودوں کی ہتک اور تضحیک کی بھی ممانعت کر تا ہے، مجھے اس واردات پر دلی افسوس ہے۔آپ اس کی مرمت کر والیں اس کے تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جائیں گے ۔بشپ نے کہا حضور ایسا ممکن نہیں کیونکہ کٹی ناک ہمارے پاس موجود نہیں اور ہو بھی تو اس کو جوڑنا ممکن نہیں ہے۔تو عمرو بن عاص کہا بتائو آپ کیا چاہتے ہیں ؟ تو بشپ نے کہا کے ہمارے مذہبی شعائر کی توہین ہوئی ہے ہم اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔عمرو بن عاص نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اس کا تاوان لے لو بشپ نے کہا کے حضور ہم یسوع کو خدا کا بیٹا اور خدا مانتے ہیں ۔اتنی بڑی توہین ہوئی ہے اس کا بدلہ چند درہموں میں نہیں چکایا جا سکتا ،بشپ نے کہا کہ ایک صورت ہے اگر آپ منظور فر ما لیں تو ،والئی مصر نے کہا کہ وہ کیا صورت ہے؟بشپ کے کہا کہ آپ اپنے رسول ۖ کا مجسمہ بنوائیں اور ہم۔۔۔۔ابھی الفاظ بشپ کے منہ میں ہی تھے کہ عمرو بن عاص انتہائی غصے میں بولے خاموش اے گستاخ والئی مصر کا جلال ان کی آواز اور ان کے چہرے کے تا ثرات سے عیاں تھا ۔انہوں نے تلوار میان سے نکال لی غصے سے ان کا جسم تھر تھرا رہا تھا ،مسیحی وفد نے جب والئی مصر کی یہ حالت دیکھی تو ڈر کے مارے سہم گئے اور ان کو ایسے لگنے لگا جیسے ابھی ان کی گردنیں تن سے جدا کر دی جائیں گی ۔آج انہوں نے پہلی بار مسلمانوں کے سپہ سالار کو اس قدر غصے میں دیکھا تھا ،حضرت عمر کے خلافت کے دور میں جب مسلمان مصر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے تب سے اہل شہر عیسائی حکومت سے زیادہ مسلمانوں کی حکومت کو پسند کرتے تھے کیونکہ مسلمانوں کے دور میں ان کو مکمل عدل و انصاف اور مذہبی آزادی حاصل تھی لیکن یسوع مسیح کے مجسمے کی ناک کاٹے جانے کے واقعہ نے ان میں سنسنی پیدا کر دی تھی اور ان کے جذبات اشتعال میں تھے اس لئے وہ اس مسئلے کو لے کر والئی مصر کے پاس حاضر ہوئے تھے ۔بشپ کے لغو مطالبے پر والئی مصر سخت غصے میں آگئے تھے عمروبن عاص نے بشپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم لوگ انتہائی گستاخ ہو دل تو چاہتا ہے کہ تمھاری گردنیں اڑادوں۔تمھیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ ہم اپنے نبیۖ سے کتنی محبت کرتے ہیں ہم ان کی محبت میں جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں ،ہمارے سامنے ہمارا سب مال و اسباب لوٹ لیا جائے ہماری اولاد کے ٹکرے ٹکرے کر دیے جائیں یہاں تک کہ ہمارے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جائے ،یہ سب ہمیں قبول ہے لیکن ایک چھوٹا سا جملہ بھی ہم اپنے آقاۖ کے خلاف بر داشت نہیں کر سکتے۔
تم نے یہ فقرہ بول کے ہمارا دل دکھایا ہے اور تمھارا یہ مطالبہ انتہائی لغو ہے کیونکہ ہم یہ گمان بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے آقاۖ کا مجسمہ بنائیں۔عمروبن عاص نے کہا کہ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے کوئی بات کی جائے لیکن تمھاری جہالت کے باعث تمھیں یہ رعایت دی جاتی ہے کہ اگر تمھارے پاس کوئی اور معقول حل ہے تو بتائو ؟ جس سے تمھاری مذہبی شگستگی کا مدوا ہو سکے ،مجھے تمھارے جذبات کا پورا احساس ہے لیکن نعوذ باللہ نبی کریم ۖ کا بت بنا کر ناک اڑانے سے بہتر ہے کہ تم ہم میں سے کسی کی ناک کاٹ لو۔کیونکہ اپنی رعایا کو انصاف فرہم کرنا ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ۔بشپ نہایت ہی لجاجت سے بولا کہ حضور ہمیں افسوس ہے کہ ہماری وجہ سے آپ رنجیدہ ہوئے ہمیں اس بات کا قطعا اندازہ نہیں تھا کہ آپ نبیۖ سے اس قدر محبت کرتے ہیں ہمیں آپ کی پیش کردہ تجویز منظور ہے۔والئی مصر نے کہا کہ ٹھیک ہے تم شہر میں منادی کرا دو کل سب لوگ شہر کے بڑے میدان میں جمع ہو جائیں یہ کام سب کے سامنے کیاجائے گا تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی کے مذہبی شعائر کی توہین کی جرت نہ کر سکے۔ مختصر یہ کہ اگلے دن لوگ شہر کے ایک بڑے میدان میں جمع ہو گے کچھ دیر بعد والئی مصر بھی گھوڑے پر سوار اس میدان میں پہنچ گئے اور اسلامی سپاہ بھی وہاں موجود تھی ۔آپ نے تمام واقعہ لوگوں کو سنا یاا ور اپنی سپاہ سے کہا کہ یہ جس پر شک کریں وہ آگے آجائے اس کی ناک کاٹ کا ان بدلہ پورا کر دیا جائے گا۔
Justice
مسیح بطریق اعظم جو والئی مصر کے قریب کھڑا تھا ہاتھ میں تلوار لئیے مسلمانی سپہ کی جانب بڑنے لگا تو عمروبن عاص نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں اس سپہ کا سالار ہوں اور اس شہر کا حاکم بھی ہوں اور میں نے اپنے ہاتھ سے امان نامہ بھی لکھ کر دیا ہوا ہے میری موجودگی میں کسی کہ ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی لہذہ یہ تلوار حاضر ہے آپ میری ناک کاٹ سکتے ہیں یہ کہتے ہوئے عمروبن عاص نے اپنی تلوار بطریق اعظم کی جانب بڑھا دی۔
یہ ماجرہ دیکھ کر اسلامی سپہ کا ایک افسر آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ کیا میری ناک کاٹ کر آپ کا بدلہ پورا ہو سکتا ہے؟ مختصر یہ کہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام افسران اور سپاہی آگے آگئے اور ہرکسی نے خود کو بدلے کیلئے پیش کر دیا۔ اسی دوران ایک گھڑ سوار بڑی تیزی سے میدان میں داخل ہو اور بطریق اعظم کے پاس پہنچ کر بولا کہ اصل مجرم میں ہوں اور مجسمے کی کٹی ہوئی ناک بطریق اعظم کی جانب اچھال دی۔ اس نے کہا کہ آپ میری ناک کاٹ کر اپنا بدلہ لے لو۔ یہ سارا ماجرہ دیکھ کر سب عیسائی دنگ رہ گئے اور سوچنے لگے کہ یہ انسان ہیں یا فرشتے یہ منظر دیکھ کر بطریق اعظم بے اختیار بول پڑا کہ یسوع کی قسم تم لوگ حضرت عیسی کی تعلیمات کا مکمل نمونہ ہو ،کس قدر سچی اور انصاف کی پیکر ہوگی وہ ذات جس کے تم پیرو کار ہو ۔بطریق اعظم نے والئی مصر کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ دے دئیے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور اس کہ دیکھ کر کئی عیسائی مسلمان ہو گئے۔یہ ہے وہ دین جو ہمیں وراثت میں ملا ہے جو دوسرے مذاہب سے بھی عدل و انصاف اور حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے ۔چند روز پہلے لاہور کے نواح میں قصور کے علاقے کوٹ ردا کشن میں عیسائی میاں بیوی کو تشدد کرنے بعد بھٹئی میں پھینک کر زندہ جلا دیا گیا ان پر الزام تھا کے انہوں نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے ۔ یہ بات تو تہہ ہے کہ محبت قران اور محبت رسولۖ ہمارے دین کا حصہ ہے اور کسی بھی صورت میں رسولۖ اور قران مجید کی توہین برداشت نہیں کی جا سکتی ۔ہمارے ملک میں باقاعدہ قانون موجودہے جس میں توہین کے مرتکب ہونے والوں کیلئے سخت سزا رکھی گئی ہے ۔لیکن بعض اوقات اس قانون کا غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
ماضی میں گوجرہ اور لاہور میں بادمی باغ جیسے واقعات سب کے سامنے ہیں جہا ںپوری کی پوری بستیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا اور وہاں پر لوٹ مار کی گئی اگرچہ قصور ایک دو لوگوں کا تھا لیکن اس کی سزا پوری بستی کو دی گئی کیا یہ نا انصافی اور ظلم نہیں؟ کیا لو گوں کو زندہ جلا دینا سفاکیت نہیں؟کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں؟ ۔ چند روز پہلے کوٹ رادا کشن میں پیش آنے واقعہ کو کوٹ رادا کشن کے ہی رہاشی میرے ایک دوست نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی ایک بھٹے پر بطور مزدور کام کرتے تھے اور انہوں نے بھٹہ مالک سے کچھ رقم بھی ادھار لے رکھی تھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر پچھلے کچھ عرصے سے وہ اپنے مالک سے اجرت بڑھانے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن وہ ان کی اجرت کسی صورت بڑھانے کو تیا ر نہ تھا چارو ناچار انہوں اس بھٹے کو چھوڑ کر ایک اور بھٹے پر مزدوری کرنا شروع کر دی ، جس کے بعد پہلے والے مالک نے دی گئی ادھار رقم جو کہ چند ہزار روپے تھی واپس مانگنا شروع کر دی جو وہ با وجہ غربت واپس نہ کر سکے تو بھٹہ مالک نے قرض واپس نہ کرنے کی پاداش میں ان پر مقدس اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگا دیا اور لوگوں کے ساتھ مل کر پہلے تو ان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ان کو اینٹیں پکانے والی بھئٹی میں پھینک کر زندہ جلا دیا گیا ۔ حالا نکہ بھٹہ مالک سلطان گجر اور اس کے منشی نے اس واقعہ سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔بہرحال حکومت نے اس واقعہ پر ایکشن لے لیا ہے اور وزیر اعلی پنجاب نے (JIT)کی تشکیل کا اعلان کر دیا ہے امید ہے کہ اصل حقائق جو بھی ہوں گے جلد عوام کے سامنے آ جائیں گے لیکن ہمیں بھی بطور مسلمان اپنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ آیا ہم اسلام کے نام پر کسی سازش کا حصہ تو نہیں بن رہے۔ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود ہی فیصلہ کر لینا اور خود ہی سزا دے دینا کون سی عقلمندی ہے ؟ کون سی جواں مردی ہے ؟ اپنے مذہب سے محبت کا جذبہ اپنی جگہ لیکن بطور مسلمان ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم کسی دوسر ے مذہب کے پیرو کا ر سے زیادتی تو نہیں کر رہے۔
کیونکہ دلوں کے حال خدا بہتر جانتا ہے اور ہمیں کل خداکی عدالت میں پیش ہو نا ہے ، اور اس بات میں ذرا بربر بھی شک نہیں ہے کہ اس کی عدالت میں کسی سے بھی نا انصافی نہ ہو گی۔ اس دن اگر کسی غیر مذہب نے کھڑے ہو کر یہ کہہ دیا کہ اس شخص نے اسلام کے نام پر مجھ سے زیادتی کی تھی مجھ پر ظلم ڈھایا تھا تو ہم خدا کو کیا منہ دیکھائیں گے ؟اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مسلمان اپنی جان ومال ،اولاد سب کچھ قربان کر سکتا ہے لیکن توہین رسالت ۖاورتو ہین قران کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ کوٹ راداکشن واقعہ کا فیصلہ بھی والئی مصر کی طرح کسی بڑے میدان میں کیا جانا چاہیے تاکہ مسلم ہو خواہ غیر مسلم آئندہ کوئی بھی کسی کے مذہبی شعائر کی توہین کی جرت نہ کر سکے۔