سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2013 ہونیوالے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں اور قرار دیا ہے کہ انتخابی عذر داریوں کے لئے آئین کے تحت ٹربیونلز فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس واضح اور دو ٹوک حکم کے بعد اب انتخابی دھاندلی کے سوال پر سیاسی رسہ کشی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
عالمی میڈیا پر ہونے والے تبصروں میں کہا جارہاہے کہ پاکستان میں اس وقت سیاسی قوتیں بدستور پوائنٹ اسکورنگ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بدنصیبی سے یہ معاملہ اب صرف تحریک انصاف کے احتجاج اور انتخابی دھاندلیوں پر اس کے اعتراض تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ ملک کی کئی سیاسی قوتیں مختلف سیاسی معاملات پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دو ہفتے قبل کراچی میں تقریر کرتے ہوئے ملک کی تقریباً سب سیاسی جماعتوں کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز کیا تھا۔اس کے جواب میں متحدہ قومی موومنٹ، خورشید شاہ کے ایک بیان کو لے کر پیپلز پارٹی کے خلاف خطرناک سیاسی مہم جوئی کر رہی ہے۔
اس معاملہ میں نہایت بھونڈے طریقے سے مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سنگین غلطی کی نشاندہی کے باوجود ایم کیو ایم اس سے گریز کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی اپنے طور پر تحریک انصاف کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ایک خود کش حملہ میں اس پارٹی کے لیڈر مولانا فضل الرحمن کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔
تحریک انصاف کی جدوجہد اگرچہ انتخابی اصلاحات کے لئے شروع ہوئی تھی لیکن گزشتہ اڑھائی ماہ کے دوران اس کے لیڈر عمران خان نے اتنے متضاد بیان دئیے ہیں کہ کسی صاحب فہم مبصر کے لئے بھی یہ جاننا مشکل ہے کہ آخر ان کا مقصد کیا ہے۔ اگرچہ اب یہ واضح ہے کہ ان کا ایجنڈا حکومت کو گرانا ہے۔ اس کی دلیل کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ مئی 2013 میں منعقد ہونے والے انتخبات مکمل طور سے دھاندلی کا نتیجہ تھے اس لئے اس کے تحت قائم ہونے والی اسمبلیاں اور حکومتیں ناجائز اور ناقابل قبول ہیں۔اب یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے زعما صوبے میں حکومت ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
Imran Khan
وزیراعلیٰ پرویز خٹک اس بارے میں عمران خان اور مرکزی قیادت کو صاف پیغام دے چکے ہیں۔ پارٹی کی اندرونی شکست و ریخت کو روکنے کے لئے ہٹ دھرم عمران خان بھی پرویز خٹک کی بات ماننے پر مجبور ہیں۔ لیکن وہ قومی اسمبلی سے استعفے دینے پر بضد ہیں۔طاہر القادری کا دھرنا ختم ہونے اور سیاسی منظر نامے میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران پیش آنے والی تبدیلیوں کے پیش نظر ہر صاحب نظر نے عمران خان کو دھرنا ختم کرنے ، قومی اسمبلی سے استعفے واپس لینے اور سیاسی عمل میں مثبت کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
لیکن تحریک انصاف کے سربراہ سیاست میں غیر سیاسی رویہ اختیار کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اگر وہ تنہا بھی رہ گئے تو بھی وہ آخری سانس تک اسلام آباد میں دھرنا جاری رکھیں گے۔ جمہور کی طاقت اور جمہوریت کی روح کے مطابق عمران خان بطور فرد اپنی ذات میں کوئی سیاسی اہمیت نہیں رکھتے وگرنہ وہ اس قسم کا دھرنا اور لب و لہجہ 20 برس پہلے ہی اختیار کر لیتے۔ ان کی قوت ان کے چاہنے اور ماننے والے لوگ ہیں۔ اگر انہوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا تو نہ تو انہیں کوئی اسلام آباد میں بیٹھنے دے گا اور نہ ہی وہ اس کا حوصلہ کریں گے۔
اسلام آباد کے دھرنے قانون اور مروجہ طریقہ کار کے علاوہ عدالتی فیصلوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے جاری رکھے گئے تھے۔ حکومت عوام کی طاقت کی وجہ سے اس دھرنوں کے خلاف کارروائی کرنے سے باز رہی ہے۔ لہٰذا عمران خان کو بھی عوام کی اس طاقت کا احترام کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا چاہئے، جو انہیں قانون کو ہاتھ میں لینے کا حوصلہ بھی دے رہی ہے۔اگرچہ کسی معتبر سیاسی لیڈر کے لئے قانون شکنی کوئی قابل تقلید روایت نہیں ہے اور نہ ہی اسے پسندیدہ سمجھا جانا چاہئے۔ لیڈروں کو اپنے قول و عمل سے قانون کی سربلندی کے لئے کام کرنا ہوتا ہے۔
اس کے باوجود ابھی ملک کے سیاست دان اس بنیادی سیاسی اصول کو پلے باندھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی رویہ کا نتیجہ ہے کہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ کے مسئلہ کو پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کا تماشہ آج پارلیمنٹ ہاؤس میں پھر سے دیکھنے میں آیا۔ تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے اراکین فرداً فرداً اسپیکر کے پاس پیش ہو کر اپنے استعفوں کی تصدیق سے گریز کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ وہ ایک گروپ کے طور پر پیش ہوں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کا فیصلہ تحریک انصاف یا عمران خان کی شکست نہیں بلکہ فتح سمجھا جائے گا۔
مؤرخ یہ اقرار کرے گا کہ عمران خان اور ان کے رفقا نے جراتمندی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن عدالت کے فیصلہ پر سر جھکا دیا۔ قانون کا احترام ہی کسی سیاسی لیڈر کی کامیابی کے لئے بہترین راستہ ہے۔ البتہ اگر تحریک انصاف اور اس کی قیادت سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خاطر میں نہیں لاتی تو وہ ایک طرف اپنی سیاسی مشکلات میں اضافہ کرے گی تو دوسری طرف ملک میں قانون کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کا سبب بھی بنے گی۔