انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں اور انہی دو پہلوئوں سے کسی معاشرے کے افراد کی اصول پسندی اور قانون کی حکمرانی کا تعین کیا جا تا ہے ۔ ایک پہلو کا تعلق انسان کی ریاستی ذمہ داریوں اور فرائض سے ہو تا ہے جبکہ دوسر ے پہلو کا تعلق اس کی عائلی،فیملی، معاشرتی اور انفرادی زندگی سے ہو تا ہے۔دونوں کی اہمیت سے نکار ممکن نہیں ہے ۔اگر میں یہ کہوں کہ ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ جہاں تک ریاستی امور کا معاملہ ہے یورپی عوام اس میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔وہ قانون کے احترام میں کسی حیل وحجت سے کام نہیں لیتیں بلکہ دل کی پوری گہرائیوں سے اس پرعمل پیرا ہوتی ہیں ۔قانون کا احترام اور ریاست سے وفاداری ان کیلئے ایمان کا درجہ رکھتی ہے ۔وہ ملکی مفاد کو ہر حال میں مقدم رکھتے ہیں۔ان کیلئے ان کا ملک انتہائی مقدس ہو تا ہے اور اس کی خاطر وہ کسی بھی قسم کی کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے جس سے ملکی نظام کو ضعف پہنچے یا اس سے ان کے جمہوری نظام میں کوئی جھول پیدا ہو۔وطن کی خدمت اور اس کے مفادات کی حفاظت کیلئے وہ ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔ملکی خزانے کو نقصان پہنچانا یا اس میں خرد بردکرنا ان کیلئے ناقابلِ تصور ہوتا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک میں کرپشن ناپید ہے۔منی لانڈرِ نگ اور قومی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے کی وہ روائت جو ہمارے ہاں مستعمل ہے اس کا وہاں نا م و نشان تک نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے دل سے پکا عہد باندھ رکھا ہے کہ انھیں قانون کا احترام کرنا ہے اور وہ عملی طور پر ایسا کر کے دکھاتے ہیں۔وہ خالی خولی دعوی نہیں کرتے بلکہ خود کو قانون کے سامنے سرنگوں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا معاشرہ ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ہمارے ہاں تو ٹریفک کے سگنل پر رکنا لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں قانون کی پاسداری کی تعلیم ہی نہیں دی گئی ۔ ،۔
آئین، قانون اور انصاف پر عمل داری یورپی اقوام کی پہچان ہے جسے پوری دنیاسراہتی ہے۔یورپ میں وزیرِ اعظم اور عام آدمی کیلئے ایک جیسے قوانین ہیں اور قانون کا نفاذکرنے والے ادارے اس میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔اگر وزیرِ اعظم قانون شکنی کا مرتکب ہو تا ہے تو اسے بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ سربرا ہِ مملکت ہونے کی وجہ سے قانون نافذکرنے والے ادارے اس کی قانون شکنی سے چشم پو شی کر لیں۔بل کلنٹن امریکہ کے انتہائی مقبول صدر تھے اور عوام نے انھیں دو دفعہ اس عہدہ جلیلہ کیلئے منتخب کیا تھا۔ان پر ذاتی گھر خریدنے کا مقدمہ دائر ہوا تو انھیں عدالت میں اپنی منی ٹریل دینی پڑی تھی اور عدالت کو مطمئن کرنا پڑا تھا ۔ان پر الزام تھا کہ وہ اتنا بڑا اور مہنگا گھر اپنی آمدنی سے خریدنے کے اہل نہیں تھے لہذا انھیں اس بات کو ثابت کرنا ہو گا کہ انھوں نے یہ گھر کیسے بنایا ۔کیا یہ کم اہم ہے کہ امریکی صدر کو اپنے گھر کی تعمیر کے لئے عدالت کے رو برواپنی دیانت کی گواہی دینی پڑ ی تھی؟ان کی بیوی ہلری کلنٹن جو کہ خود بھی قانون میں اٹارنی ہیں اور ان کی ذاتی آمدنی بہت زیادہ ہے انھیں عدالت میں حلفیہ بیان دینا پڑا تھا کہ اس گھر کی خریداری میں انھوں نے بل کلنٹن کی اعانت کی تھی۔
وہ تمام کاغذا ت، چیک اور دوسری دستا ویز جو اس جو اس سلسلے میں جاری ہوئی تھیں ان کی مکمل تفصیلات عدالت کے روبرو رکھی گئی تھیں اور عدالت کو مطمئن کیا گیا تھا تو تب کہیں جا کر بل کلنٹن کی جان چھوٹی تھی ۔ ہمارے ہاں تو ہر بڑے سیاست دان اور مشیر وزیر کے اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں اربوں روپوں سے تعمیر کردہ کئی کئی گھر ہوتے ہیں اور وہ کیسے بنتے ہیں سب جانتے ہیں۔لیکن ان سے باز پرس نہیں کی جاتی جس سے ملک میں کرپشن کا دھندا پورے زوروں پر ہے۔ایک حکومت آتی ہے تو جانے والوں کا رونا روتی ہے لیکن اپنی رخصتی کے بعد اس پر بھی کرپشن کا وہی دھبہ لگ جاتا ہے جو اس سے پہلے والی حکومت پر لگا ہوتاتھا۔یہ چکر بودھی پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے ہی جاری و سار ی ہے اور اس میں کسی بہتری کیے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ۔مخالفین کے خلاف بیان بازی اور بڑھکیں سنائی دیں گی لیکن جب بات اپنے گر ببان تک پہنچتی ہے تو سب ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے۔
جہانگیر ترین کے خلاف جے آئی ٹی نے شوگر انکوائر ی کی لیکن حکومت کو سیاسی دباوء کی وجہ سے ہاتھ ہولا رکھنا پڑا کیونکہ جہانگیر ترین نے ٣٥ ممبرانِ اسمبلی کا ایک علیحدہ گروپ بنا کر حکومت کے پیروں تلے سے زمین نکال دی تھی۔ممبرانِ اسمبلی کی عدالت میں اجتماعی حاضری نے حکومت کے اوسان خطا کر دئیے تھے ۔پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے عمران خان کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئے اور انھیں ان کے سامنے سر نگوں ہو نا پڑ ا۔منت سماجت کر کے انھیں ٹھنڈا کیا گیا اور ان کے مطالبہ پر جہانگیر ترین کے خلاف انکوائری روکنی پڑی۔میاں محمد نواز شریف کے خلاف بنائی گئی جے آئی ٹی سے شہرت پانے والے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر واجد ضیاء کوان کے عہدے سے فارغ کیا گیا اور شہزاد اکبر کو ٹیلیویژن پر آ کر ترین گروپ سے معذرت کرنی پڑی تو تب کہیں جا کر حکومت کی جان میں جان آئی۔حکومت کیلئے پریشانی اس بات کی تھی کہ اگر وہ مقدمہ چلائیں تو حکومت گر جاتی ہے اور اگر فائل بند کریں گے تو احتساب کا نعرہ بے اثر ہو جاتا ہے لہذ ا حتمی فیصلہ یہی ہوا کہ احتساب کی جگہ اقتدار زندہ باد ۔ جہانگیر ترین بھی خاموش، حکومت بھی خاموش اپوزیشن بھی خاموش کیونکہ ساروں کو ریلیف مل گیا۔،۔
پاکستان میں اداروں کا کوئی وجود نہیں اس لئے ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔نیب کے چیرمین جسٹس جاوید اقبال بھی لبوں پر مہر لگا لیتے ہیں کیونکہ انھیں ایسا ہی کرنے کا حکم صادرہوا ہوتا ہے۔ ویسے تو ان کے بیا نات ہنگامہ حیز ہوتے ہیں لیکن جب کبھی حکومتی بنچوں سے کوئی انکوائری سامنے آتی ہے تووہ کسی بھی قسم کی پیش رفت کرنے سے معذرت کر لیتے ہیں ۔ ہاں اگر اپوزیشن کو شکنجے میں کسناہو توں راتوں رات مقدمہ دائر ہو جاتا ہے اور مخالفین کو کئی کئی ماہ تک زندانوں میں پھینک دیا جاتاہے۔مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف حال ہی میں چھ ماہ کی جیل یاترہ کے بعد واپس لوٹے ہیں۔وہ نیب اور حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی بلکہ ان کے خلاف نئے مقدمات قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔میاں شہباز شریف،شاہد خاقان عباسی ،میاں حمزہ شہباز،رانا ثنا اللہ ، احسن اقبال،خواجہ سعد رفیق ،مفتاح اسماعیل،جاوید لطیف اور کئی دوسر ے قائدین نیب کی پھرتیوں کا شکار ہوچکے ہیں ۔
ذاتی انتقام کی یہ روش ملک کو انتہائی نقصان پہنچا رہی ہے جس میں اپنوں پر دستِ شفقت رکھا جاتا ہے جبکہ مخالفین پر مقدمات قائم کر کے انھیں کئی کئی مہینوں تک جیلوں میں ٹھونسا جاتاہے ۔آصف علی زرداری،فریال تالپور،خورشید شاہ کیلئے جیل کوئی نئی چیز نہیں لیکن حکومت مخالفین کے خلاف ایسی اوچھی حرکتیں کرتی رہتی ہے ۔یورپ میں ایسا نہیں ہوتا۔وہاں اسے ہی شکنجے میں کسا جاتا ہے جس کے خلاف ٹھوس شواہد ہوتے ہیں ۔ ذاتی انتقام اور انا کی تسکین کی خاطر وہاں پر مخالفین کو دبوچا نہیں جاتا۔ملزم کو ملزم سمجھ کر ہاتھ ڈالا جاتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔وہاں پر اپنوں اور غیروں میں خطِ امتیاز نہیں کھینچا جاتا جس کی وجہ سے قانون پوری قوت سے اپنا راستہ بناتا ہے تا کہ قانون و انصاف کا بول بالا ہو جائے اور یوں کسی کے ساتھ نا انصافی کا کوئی شائبہ نہ رہے ۔جب یقین ہو کہ کسی کے ساتھ نا انصافی روا نہیں رکھی جائے گی توپورا معاشرہ قانون کی طاقت کے سامنے جھک جاتا ہے ۔ بے لاگ انصاف کا اطلاق ہی تو فیض کی زندگی کی سب سے بڑی حواہش تھی۔ان کے اظہار کا رنگ دیکھئے ( ہم دیکھیں گے ،جو لوحِ ازل میں لکھا ہے ، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔،۔ جب تاج اچھالے جائیں گے جب تحت گرائے جائیں گے )افسوس صد افسوس کہ سوائے نعروں اور دعووں کے انصاف کا کہیں نام و نشاں نہیں ہے، وہی پرانے بدنما، نا اہل اور کرپٹ چہرے اقتدار پر متمکن ہیں اور معاشرہ انتشار اور بد امنی کی زندہ لاش بنا ہوا ہے۔۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔