تحریر : عمارہ کنول کہتے ہیں انسان کی زندگی کا تمام دارومدار دل پر ہوتا ہے دل کو دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ ہدایات جاری کرتا ہے کہ اب یہ کرو اور اب یہ نا کرو۔ اگر دل دماغ کے تابع رہے تو تمام جسمانی افعال درست سرزد ہو تے رہتے ہیں جس دن دل بغاوت کر دے سمجھ لیں آپ زندگی کے دائرہ کار سے خارج ہو چکے ہیں۔ دل دو طرح کی بغاوت کرتا ہے یا تیز دھڑک کر یا رک کر۔ دماغ جو بھی کرے انسان دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔
سیاست اور جمہوریت بھی دل اور دماغ کی طرح ہیں جمہوریت بغاوت کر دے تو مارشل لاء لگانے کی نوبت آجاتی ہے۔ انسان ایک معاشرتی جانور ہے تو زور اس بات پر ہوا کہ جانور ہے مان لیجئے جیسے ایک جانور کو زنجیر قابو میں رکھتی ہے اسی طرح جمہوریت ملک کو قابو میں رکھتا ہے۔جب میں اپنے ملکی حالات کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں یہ چل کیا رہا ہے؟
بائیس کڑور عوام اپنا جمہوری حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ایک حکومت کو چنتی ہے اور وہ حکومت عدلیہ کا کھویا ہوا وقار بحال کرتی ہے اپنے ہاتھوں سے عدل کا پودا لگاتی ہے کہ ملک خوشحال ہو سکے ، دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی کے مصداق صورتحال نظر آتی ہے۔ جس تیزی سے عدلیہ کے فیصلے ارہے ہیں میرے ہزاروں دوستوں کو بے حد خوشی ہو رہی ہے پر یقین مانیئے مجھے اس دن حقیقی خوشی ہو گی جس دن اسی طرح ایک ایک کر کے تمام لوگ کٹہرے میں لائے جائیں گے جن میں سوئس بینک والے، کمر درد والے،کینڈا والے، برطانیہ کی عدالت کو جھٹلانے والے یعنی سب ایک ایک کر کے اسی طرح نااہل قرار دئیے جائیں گے۔ جس رفتار سے ایک فرد واحد کے خلاف فیصلے آرہے مجھے ڈر ہے ایک دن بات ان کے گھر تک نا جا پہنچے کہ بیوی کو بھی طلاق دے دیں قریبی ذرائع کی اطلاع ہے کہ آپ اس حوالے سیبھی اہل نہیں رہے۔
ہم کیسی ناشناس قوم ہیں جس نے مزار قائد کے تقدس کا خیال نہیں رکھا۔ ہم کیسی قوم ہیں جس نے اقبال کے مزار کا خیال نہیں رکھا ہر بات کی ذمہ داری ہم حکومت پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں مجھے بتائیے اگر حکومت کہیں گٹر بنواتی ہے تو کیا وزیراعظم وہاں کھڑا ہو کر ساری رات پہرہ دے کہ کوئی گٹر کا ڈھکن چوری نا کر لے۔؟ ان مزاروں پر جو کچھ ہو رہا وہ کرنے والا کون ہے۔معاف کیجئیے گا وہ آپ اور میں ہیں،حکومت نہیں۔ مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب میں چند بقراطیوں کی زبانی سنتی ہوں کہ انہیں خلفاء راشدین جیسا حکمران چاہئیے۔ پتا تب عوام کیسی تھی؟ اتنی ہمدردکہ زکوٰة کا حقدار دور دور تک نہیں ملتا تھا،اتنا تعاون اتنا انصاف۔ تب قاضی صرف لوگوں کے مابین فیصلے سنایاکرتے تھے کون بنے گا اگلا خلیفہ کا فیصلہ نہیں کرتے تھے۔
پنجابی کی ایک کہاوت ہے جیسا منہ ویسی چپیڑ۔ تو جیسے بے ضمیر،ناانصاف۔ خود غرض اور لاپرواہ آپ لوگ ہیں آپ کو ویسے ہی حکمران چاہئیے آپ کو ایسا حکمران تو بالکل نہیں چاہئے جو آپکو سڑکیں بنا کہ دے عوام کو سواری کی سہولت کم پیسوں میں ملے۔ اس بندے نے ان سواریوں پر سفر کیوں کرنا جو آپ کی نظر میں ڈان مافیا اور کڑوروں کا مالک ہے اسے کیا پڑی کہ بیس روپے میں کئی کلو میٹر کا سفر بنا دھوئیں شور اور اے سی والی سواری میں کرے۔ آپ تو اسی لائق ہیں کہ جب قلندر پاک بم دھماکہ ہوتا ہے وہاں پاس کوئی اسپتال ہی نا ہو پھر بھی آج تک جئے بھٹو ہوتی ہے اور اتنی وفادار قوم ہے وہ سر اٹھانے کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی۔ اور دوسری طرف آپ جس کے میڈیا کو جو مرضی بولنے ۔۔۔ معذرت منہ سے آگ و زہر اگلنے کی پوری آزادی بھی ہو تعلیم اور صحت کے گھر گھر و موبائل منصوبے بھی ہوں اور بات بے بات یہ کہنے کی بھی آزادی ہو کہ ہمارا لیڈر چور ہے۔ کیوں؟ کیونکہ کچھ شر پسند عناصر یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا بھلا نا ہو۔ کبھی سوچا کہ یہ جو سڑکیں بن رہی تھیں اس کا فائدہ کس کو تھا؟ سی پیک کا فائدہ کس کو تھا؟ ہزاروں میلوں کا فیصلہ منٹوں میں طے ہو رہا فائدہ کس کو تھا؟ آج امیر ہو یا غریب ہر عید قربان پر قربانی کرتا پہلے جانور خریدنے جاؤ تو وہ آپ کی کھال اتارتا پھر قصائی جانور کی۔ اور آپ وہ کھال ایسے لوگوں کو دے آتے جو آپ سے کہتے ہم آپ کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں ہم آپ کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے کر جائیں گے وہ لوگ لے کر جائیں گے جواپ سے آپکی زکوٰةقربانی کی کھال و عطیات لیتے ہیں؟ نہیں سوچا تھا ناں۔ اب سوچیں۔ جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو وہی دوسرے کا بھلا کر سکتا۔ جو خود زکوٰة کا مستحق ہے وہ آپ کو کیا دے گا؟
دماغ کو کام کرنے دیں اور دل کو دماغ کے تابع رہنے دیں۔ میرے ملک میں ہزاروں لوگ اپنی زندگیاں جیلوں میں بے گناہ ہونے کے باوجود گزار رہے صرف انصاف کے انتظار میں، ایک نظر کرم ان پر بھی کر دیں کیونکہ ترازو کے توازن کی عزت کا سوال ہے۔۔ دل میں صرف ایک بار ایک ہی تصویر نقش ہوتی ہے دل میں چار خانے ضرور ہوتے ہیں مگر سب کی دھڑکن کی آواز ایک ہی ہوتی ہے۔ آج ہمارے سب کی دھڑکن ایک ہی بات کہہ رہی ہے انصاف سب کے لیے،ایک جیسا۔ اس بار اگر دھڑکن نے بغاوت کردی تو کسی کی سیاست کبھی جمہوریت نہیں لا سکے گی۔