انصاف کی جڑوں میں کون بیٹھا ہے

Justice

Justice

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

ہمارا نظام سیاست تو بدتر تھا ہی لیکن ہمارے ہاں نظام انصاف بدترین ہو چکا ہے انہی چند دنوں میں جو فیصلے آئے ہیں انہوں نے نہ صرف عوام کو حیران کر دیا ہے بلکہ پریشان کر دیا ہے کل کے مجرم آج کے معتبر ٹھیرے اور معتبر مجرم ٹھیرے عوام اتنی بھی بھولی نہیں ہے کہ معصوموں اور مجرموں میں تمیز نہ کر سکے لیکن عدالتیں ثبوت مانگتی ہیں جو یا تو جلا دیے گئے ہیں یا سیاسی مافیا ان تک پہنچنے ہی نہیں دیتا یہ انصاف کی نرسری میں جو گندے انڈے چھپے ہیں ان کو کون سامنے لائے گا اس سسٹم کو کون بدلے گا اس گہرائی تک کون پہنچے گا ؟ہم تو اپنے بچپن سے اس انصاف کو صرف بکتا دیکھ رہے ہیں جتنی اونچی مسند ہوتی جاتی ہے ریٹ بڑھتا جاتا ہے لوگ دعا کرتے ہیں اللہ ہر بندے کو تھانہ کچحری سے بچائے اگر کسی کو جوش چڑھتا بھی ہے کہ ہم نے طاقت ور سے نہیں ڈرنا تو وہ اپنی اس طاقت کو نیچا دکھانے میں سرف کر دیتا ہے جس کو الٹا طاقت دینے کی ضرورت ہے ،یہ ہماری بد قسمتی ہے جس نے عوام کو مزید مایوس کیا ہے یوں سمجھ لیں پہلے اس گند پر پردہ پڑا ہوا تھا جو اب اٹھ چکا ہے انصاف ننگا ہو چکا ہے اس سسٹم کے بینیفشری کون ہیں ؟اس کی جڑوں میں کون بیٹھا ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہ تحریر پڑھتے ہیں محمد امانت اللہ جدہ سے لکھتے ہیں ،میری ملاقات ایک وکیل صاحب سے ہوئی کافی دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں میں نے دیکھا گاڑی کے ڈیش بورڈ پر سپریم کورٹ بار کونسل کی ڈائری رکھی ہوئی ہے۔

میں نے کہا اس کو سنبھال کر گاڑی کے دراز میں رکھ لیں فرمانے لگے آپ کو کیا پتہ یہ پاکستان ہے ہم جہاں بھی چاہیں گاڑی پارک کر دیں مجال ہے پولیس والا چالان کاٹ دے پولیس والوں کے خلاف پرچہ کاٹ دیں گے گاڑی پر سپریم کورٹ کا اسٹکر بھی لگا ہوا ہے قانون ہمارے تابع ہے ہم انصاف دلاتے ہیں پولیس والا اندر ہو جائے باہر نکلنے کے لیے اسے وکیل کے پاس ہی آنا ہو گا میں نے کہا مگر قانون کی تابعداری تو سب پر لاگو ہوتی ہے ۔۔۔باتوں باتوں میں تریفک سگنل توڑ دیا وارڈن نے رکنے کا اشارہ کیا جیسے ہی اس کی نظرسامنے رکھی ڈائری پر پڑی اس نے کہا سر معاف کر دیں میں نے دیکھا نہیں تھا کہ آپ گاڑی چلا رہے ہیں ،کہنے لگے دیکھا ڈائری کا کمال ؟اسے معلوم ہے اگر وکیل نے پولیس والے پر پرچہ کٹوا دیا تو وکیل ہی اسے سلاخوں کے پیچھے سے آزادی دلوائے گا پھر کہنے لگے اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟ میں نے کہا رشوت دینے کی بجائے چالان کٹوا لیتا اور چالان جمع کروا دیتا فرمانے لگے یعنی آپ تسلیم کر لیتے کہ قانون شکنی کی ہے اور قانون کے مجرم ہیں ؟جب ہی تو آپ نے چالان جمع کروایا ہے آپکا کریکٹر خراب ہو جائے گا جو شخص ٹریفک کا احترام نہیں کرتا وہ ملک کے آئین کا کا احترام کیسے کرے گا آپ کبھی بھی الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے میں نے کہا اچھا تو مجھے کیا کرنا چاہیے تھا ؟آپ بھی ایک ڈائری خرید لیں اور قانون کی گرفت سے آزاد ہو جائیں مگر میں وکیل نہیں ہوں نہ ہی بارکونسل کا ممبر ہوں بولے آپ کو کیا پتا یہ پاکستان ہے جب سپریم کورٹ کے سامنے پانچ سو کا اسٹامپ پیپر سات سو روپے میں فروخت ہو سکتا ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے یہ پاکستان ہے میرے بھائی ۔۔

میں نے دریافت کیا یہ گاڑی آپکی اپنی ہے ؟فرمانے لگے یہی سمجھ لیں کیا مطلب ؟بولے ہوا کچھ یوں کہ بینک سے لون لے کر خریدی تھی ایک سال تک قسط ادا کی پھر دینا بند کر دی بینک والوں نے کیس کر دیا پھر میں نے تاریخ پر تاریخ لگوا دی اس دوران مجھے یک کلائنٹ مل گیا
اسلام آباد میں ،میں وہاں چلا گیا میں نے بینک کیس بھی وہاں ٹرانسفر کروا لیا بینک کا وکیل ہر دس دن کے بعد جہاز کا ٹکٹ لے کر کراچی سے آتا تھا بینک والوں کا بڑا خرچہ ہونے لگا تو بینک والوں نے آئوٹ آف کورٹ صلح نامے کی آفر کر دی میں نے کہا اصل رقم لے لو اور سود بھول جائو ،ویسے بھی حرام ہے ۔۔۔میری حیرت اور دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی میں نے پوچھا اچھا جس عالی شان مکان میں آپ رہتے ہیں اپنا ہے؟

بولے اپنا ہی سمجھیں ،وہ کیسے؟بیس سال قبل کرائے پر لیا تھا وقت پر کرایہ ادا کرتا تھا ایک دن مالک مکان کا دماغ خراب ہو گیا کہنے لگا پانچ سال سے رہ رہے ہو اگلے مہینے سے پانچ سو بڑھا کر کرایہ لونگا میں نے کہا ہمارے معاہدے میں کرایہ بڑھانے کی کوئی شرط شامل نہیں تھی کافی بحث و تکرار کے بعد میں نے کیس کر دیا آج تک پیشی بھگت رہا ہے اور کرایہ عدالت میں جمع ہو رہا ہے وہی پرانا پندرہ سال پہلے والا ،میں نے کہا یہ تو زیادتی ہے کہنے لگے قانون انصاف کرتا ہے مگر کب کرے گا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

میں نے بات بدلنے کو ان کے بیٹے سے سوال کیا بیٹا کون سے اسکول میں پڑھتے ہو اس نے اسکول کا نام بتایا میں نے کہا وکیل صاحب اس اسکول کی فیس تو بہت زیادہ ہے فرمانے لگے ہاں مگر اس کی فیس نہیں لگتی پوچھا کیوں؟فرمایا چند سال قبل میرا بیٹا ٹیسٹ میں فیل ہو گیا تھا ٹیچر سے تکرار ہوئی اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی میں نے کہا ٹیچر کے ساتھ ساتھ اسکول پر بھی پرچہ کٹوائونگا اسکول انتظامیہ حرکت میں آگئی انہوں نے سوچا ٹیچر کے ساتھ ساتھ اسکول کی بھی بدنامی ہوگی ۔۔۔۔الغرض ہمارا اس بات پر اتفاق ہو گیا جب تک یہ اسکول میں پڑھے گا اس سے کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی اور میں اپنی زبان بند رکھوں گا۔

سوچیئے کتنی بڑی زیادتی ہے وکیل کی زبان بند کر دی سکول والوں نے اب سوچ رہا ہوں ان کی اس حرکت کے خلاف پرچہ کٹوا دوں میں نے کہا یہ آپ زیادتی نہیں کر رہے ؟کہنے لگے پہلے قانون اندھا ہوتا تھا اب گونگا بھی ہو جائے ،میں نے کہا اچھا وکیل صاحب یہ بتائیں صحت کے حوالے سے کیا جگاڑ لگا رکھا ہے ؟ بولے جناب آپ کو علم ہے دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر حضرات کو اپنی ادویات بیچنے پر کمیشن دیتی ہیں ایک سیلز مین کی میں نے بیل کرائی تھی وہ جعلی ادویات بیچتا تھا وہ میرا بڑا احسان مند تھا ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ادویات فراہم کرتا ہے اپنی کمپنی کی اور ساتھ ہی جعلی ادویات بھی سپلائی کرتا ہے ایک دن میں ہسپتال گیا اتفاق سے وہ وہاں موجود تھا میں نے پوچھا دونوں کام کیسے چل رہے ہیں ؟بولا سر جی آپ بھول رہے ہیں کیا؟آپکو پتا ہے یہ پاکستان ہے میں نے ہسپتال والوں سے کہا آپ جعلی ادویات فروخت کرتے ہیں اور کون سپلائی کرتا ہے میں جانتا ہوں اس سیلز مین کو وہ عادی مجرم ہے ،بس جناب اس دن سے میری پوری فیملی کا مفت علاج کرتے ہیں وہ بھی اصلی ادویات کے ساتھ ،یہ پاکستان ہے سر جی میں نے کہا اب تو صرف فون بجلی اور گیس کے بل ہی بچے ہیں ،کہنے لگے فون نہیں موبائل فون کہیں یہ زمہ داری ہمارے کلائنٹ کی ہے کہ ایزی لوڈ کرائے ورنہ بات نہیں کرونگا اور اسے ملنے کے لیے ہمارے چیمبر میں آنا پڑے گا رہی بات بجلی اور گیس کی تو میں پابندی سے ادا کرتا ہوں معزز شہری وہی کہلاتے ہیں قانون کی زبان میں جو سرکاری بل پابندی سے ادا کرتے ہیں اکثر لوگ اس قانون سے ناواقفیت کی بنا پر معزز شہری کہلانے کے حق سے محروم ہیں۔

وکیل صاحب یہ بتائیں اگر کوئی قتل کر کے آپ کے پاس آئے اور اقرار جرم بھی کر لے تو آپ کیا کرتے ہیں ؟جناب میں ایک گھنٹے سے اسی سوال کا انتظار کر رہا تھا ،میں ملزم سے دو سوال کرتا ہوں کیا تمھارا ضمیر ملامت کرتا ہے؟اور تم اللہ رب العزت کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہو ؟اگر وہ کہتا ہے جی حضور تو میں کہتا ہوں میں تمھارا کیس لڑوں گا اگر میں جیت گیا تو تم سمجھ جانا اللہ کے حضور تمھاری معافی قبول ہو گئی اور اگر ہار گیا تو سمجھ جانا ،پھر وہ کہتا ہے کچھ بھی کریں مجھے قانون کی گرفت سے نجات دلائیں پھر میں اس کیس کو چیلنج سمجھ کر لیتا ہوں کہ قانون کی گرفت ہلکی کرنی ہے ،اچھا تو جھوٹ بول کر رہائی دلاتے ہیں ؟کہنے لگے جھوٹ اور ٹیکنیکل جھوٹ کے فرق کو جو سمجھ گیا وہ نا صرف وکیل بلکہ کامیاب وکیل بن گیا عام زندگی میں لوگوں کا کیسا رویہ ہوتا ہے وکیلوں کے ساتھ ؟بولے جناب ہم لوگوں کو بتاتے ہی نہیں کہ ہم وکیل ہیں ہر کوئی پناہ مانگتا ہے اور کہتا ہے بدمعاش بننے سے بہتر ہے وکیل بن جائو وکیل کے وکیل بدمعاش کے بدمعاش ۔۔۔۔ٹو ان ون ۔۔۔ایک تیر سے دو شکار ۔۔۔۔۔ لوگوں کی زندگی میں مشکل آجائے تو ہم ہی ان کے کام آتے ہیں ایک دفعہ ایک کلائنٹ آیا اور کہنے لگا پانچ قتل ہو گئے ہیں میرے لیے کچھ کریں میں نے کہا اس کام کے پانچ لاکھ لگیں گے کسی نے کہا فلاں بیرسٹر صاحب کے پاس جائو رہائی یقینی ہے چند سالوں بعد میری کورٹ میں ملاقات ہوئی ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی کہنے لگا کیس ہار گیا ہوں میں نے کہا ارے بے وقوف یہی کام میں پانچ لاکھ میں کر رہا تھا۔

وکیل صاحب یہ تو پرانا واقعہ ہے کیا اب بھی قتل کے مجرموں کو پھانسی کی سزا ہوتی ہے ؟ انہوں نے جواب نہیں دیا میں نے کہا اچھا یہ بتائیں شدید گرمی میں بھی آپ لوگ کالا کوٹ کیوں پہنتے ہیں ؟بولے آپ یہ بتائیں شدید سردی میں ڈاکٹر سفید کوٹ کیوں پہنتے ہیں ؟میں نے کہا آپ ہی اس پر روشنی ڈالیں بولے کالے کوٹ پر داغ نہیں لگتا جب کہ سفید کوٹ پر داغ لگنے کی خبر آپ ہر روز سنتے ہیں آپ نے کبھی سنا ہے وکیل کی غلطی سے کسی بے گناہ کو پھانسی ہو گئی ؟سب یہی کہتے ہیں عدالت کا فیصلہ تھا۔

مریض مر جائے تو سب یہی کہتے ہیں ڈاکٹر کی غلطی یا غفلت سے مرا ہے کوئی یہ نہیں کہتا اس کا وقت پورا ہو گیا تھا ،اچھا یہ بتائیں ڈاکٹر اور وکیل میں فرق کیا ہے بس سمجھ لیں اوپر نیچے کا فرق ہے وکیل کی غلطی سے آدمی اوپر لٹکا جاتا ہے اور ڈاکٹر کی غلطی سے نیچے چلا جاتا ہے آج تک کالے اور سفید کوٹ والوں کی غلطی پر کسی عدالت نے سزا نہیں دی کیونکہ یہ پاکستان ہے۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی