جسٹس مقبول باقر پر حملے میں ملوث گرفتار ملزم اسپتال میں دم توڑ گیا۔ لاش ورثا کے حوالے کردی گئی۔ اہم ترین مقدمے میں ملوث ملزم کی زیر حراست ہلاکت نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔
چبھیس جون سندھ ہائی کورٹ کے سینئر جج مقبول باقر پر خود کش حملہ ہوا۔ حملے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت نو افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ جسٹس مقبول باقر شدید زخمی ہوئے تھے۔ اکیس دن بعد پولیس نے کراچی کے علاقے سرجانی ٹان میں کارروائی کی۔ جس میں جسٹس مقبول باقر حملہ کے ماسٹر مائنڈ بشیر لغاری کو گرفتار کرلیا۔ لیکن زیر حراست سنگین ترین جرم میں ملوث ملزم بشیر لغاری اسپتال میں دم توڑ گیا۔
ملزم کی لاش وصول کرتے ہوئے بشیر لغاری کے بیٹے عامرنے بتایا کہ پولیس نے گھر میں گھس کر فائرنگ کی۔ میرے والد کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے نہیں تھا۔ پولیس تحویل میں اہم ترین مقدمات میں ملوث ملزمان کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔
زیرحراست ملزمان کی اموات نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔اگر اہم مقدمات ملوث ملزمان زخمی حالت میں گرفتار ہوتے ہیں تو ان کا علاج معالجہ میں اتنی لاپرواہی کیوں؟کیا پولیس اہم پروفائل کے حامل افراد کے مقدمات کو کھولنے سے کتراتے ہیں؟ ملزمان کو گرفتاری کے وقت اس طرح سے کیوں پکڑا جاتا ہے کہ وہ بیان دینے سے قبل ہی ہلاک ہوجاتا ہے؟ زیرعلاج ہلاک ہونے والے ملزمان کے پوسٹ مارٹم رپورٹ پر کارروائی کو آگے کیوں نہیں بڑھایا جاتا؟ کیا پولیس اپنی عدالت لگا کر ملزمان کو موت کی سزا دیتی ہے؟اب جسٹس باقر حملے محرکات کیسے معلوم ہوں گے؟