انصاف کا غرور

Justice

Justice

تحریر: محمد فاروق خان

کسی موروثی اور معروف کاروباری شناخت کے بغیر۔۔۔اپنی مالی کمزوریوں اور کاروباری مجبوریوں کیساتھ۔۔۔آغازِسفرکیا۔۔۔ کاروباری مسائل اور قانونی روکاوٹوں کے درمیان۔۔۔مطلوبہ مالی اہداف کے حصول کے لیئے۔۔۔وئہ پُرجوش رہا۔۔۔غربت کی اذیت کو برداشت کرتے ہوئے۔۔۔مجبوریوں اور محرومیوں پر۔۔۔عزم و حوصلے سے فتح یابی حا صل کی۔۔۔مشقت کی آبلہ پائی سے آغازِ سفر کرنے والا بڑے لمبے عرصے تک۔۔۔محنت اور جدو جہد کی راہ پر اگے بڑھتا رہا۔۔۔بالااخروئہ اپنے ویژن سے ۔۔۔اپنے خوابوں اور ارمانوں کی جھلک پہلی ہاوسنگ سکیم میں دیکھنے اور۔۔۔ اپنی صلاحیتوں کو دکھانے میںکامیاب رہا۔۔۔زینہ بہ زینہ کامیابیاں اس کا مقدر ہوتی گئیں۔۔۔عزم و ہمت کا یہ پُرخطر اور کھٹن سفر۔۔۔کامیابیوں کی پہچان بن گیا۔۔۔ محنت کو جب عظمت کا سنگ نصیب ہوا تو۔۔۔

بحریہ ٹاو ن نیشنل برینڈ ہوگیا۔۔۔پھر اُس کے مقدر کا گھوڑا سر پٹ دوڑنے لگا۔
خواب سے تعبیر تک کا سفرجاری و ساری ہے۔اُس نے ملک پاکستان کو ایسی بے نظیر ہاوسنگ سکیم دیں۔۔۔جسے کوئی اور نہ سوچ سکا۔۔۔مساجد کی تعمیر کی تو ہر سیکٹر میں۔۔۔منفرد روح پرور ڈیزائین دیا۔۔۔پارک بنائے تو۔۔۔بصارتوں کو محو حیرت کردیا۔۔۔

سڑکیں اتنی کشادہ رکھیں کہ۔۔۔دل مسرور ہو گئے۔۔۔گھروں کو ایسے جدید دلکش سٹائل دیئے ۔۔۔سی ڈی اے اور ڈی ایچ اے۔۔۔
اسکی جدت اور معیار کے سامنے نہ ٹھہرسکے۔۔۔پُرسکوں رہائشی ماحول دیا۔۔۔مستعد حفاظتی نظام دیا۔۔۔خوبصورت پودوں اور دلکش پھولوں سے۔۔۔ماحول کو رومان پرور کیا۔۔۔گالف کلب اور سفاری پارک متعارف کرائے۔۔۔جدید مارکیٹیں۔۔۔اور عالمی شہرت یافتہ برینڈز کی دستیابی کو ممکن بنایا۔۔۔پلاٹوں کی منتقلی کومنفرد اور جدید نظام سے ہم اہنگ کیا۔۔۔ایر کنڈیشن افس میں جائیں۔۔۔فائیل دیں۔۔۔فوٹو سیشن کرائیں۔۔۔کولڈ ڈرنک،کافی پئیں۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں۔۔۔ٹرانسفر فائیل لیکر۔۔۔گھر چلے جائیں۔۔۔نہ پٹواری کے ہتک آمیز رویے کی اذیت۔۔۔نہ ہی عزت نفس کے مجروح ہونے کا کوئی اندیشہ۔۔۔اگر یہ انسان دوست نظام۔۔۔ ہماری حکومت رائج کر دے۔۔۔تو اہل وطن کتنے سکوں پرور نظام میں داخل ہو جائیں۔

ملک ریاض کا بحریہ ٹائون (کیس سٹڈی) ہے۔۔۔ملک ریاض اور بحریہ ٹائون پر اگر کوئی محقق تحقیق کرنا چاہے تو۔۔۔اُس کی شحصیت اور اُس کے منصوبے کے کئی اور خفیہ پہلو اُجاگر ہوں۔۔۔اس تحقیق میں کئی عنوانات شامل کیئے جا سکتے ہیں۔۔۔اور کئی سوالات اُٹھائے جا سکتے ہیں۔۔۔یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ۔۔۔کسی کم وسائل شخص نے ایشیاء کا سب سے بڑا پراجیکٹ کیسے پائیہ تکمیل تک پہنچایا؟۔۔۔

اُسے کن کن مسائل کا سامنا رہا؟۔۔۔اُس نے حائل رکاوٹوں کو کیسے عبور کیا؟۔۔۔اُس نے قانونی مسائل کیسے حل کیئے؟۔۔۔یہ بھی
دیکھا جا سکتا ہے کہ۔۔۔اُس نے حکومتوں اور حکمرانوں تک رسائی کیسے حا صل کی؟۔۔۔اُس نے سرکاری اداروں کو اپنے ساتھ کیسے ملایا؟۔۔۔سرکاری ملازمین اُس کے ساتھ پارٹنر کیسے بنے؟۔۔۔اُس کے لیئے سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ آسان کیسے ہوتی گئی؟۔۔۔
وئہ اپنے پراجیکٹ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیئے۔۔۔زمینوں پر قبضہ کیسے کراتا رہا اور اپنی زمینوں سے قبضہ کیسے چُھڑاتا رہا؟۔۔۔
اس سٹڈی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ۔۔۔محکمہ مال کے ریکارڈ کو آگ لگانا کیوں ضروری ہوتا ہے؟۔۔۔ریکارڈ کوا گ کیسے اور کیوں لگتی
انصاف کا غرور(٢)

ہے؟۔۔۔ٹیکس کے نظام کو فرینڈلی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟۔۔۔اس میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ میڈیا کو کب اور کیسے استعمال کیا گیا؟۔۔۔اُسے کتنے بھتہ خوروں کا سامنا رہا؟۔۔۔کتنے بلیک میلروں نے اُسے دھمکایا؟۔۔۔اُس کامارکیٹنگ نظام کیسے کام کرتا رہا؟۔۔۔اس پراجیکٹ کی وساطت سے۔۔۔سیاست دانوں کی خواہشوں کے محل کیسے اور کہاں کہاں تعمیر ہوئے؟۔۔۔لیکن سب سے بڑھ کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ۔۔۔کیا ہماراریاستی نظام کرپشن میں اتنا خودسر ہو گیا ہے کہ وئہ۔۔۔محنت کے گھوڑے پر سوارکسی شاہسوار کو۔۔۔اُس وقت تک راستہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔۔۔جب تک کہ وئہ اپناحصہ وصول نہیں کر لیتا۔۔۔یا پھراس ملک میںبدعنوانی کے لانگ جمپ والے ایسے لوگ موجود ہیں۔۔۔جب ان کا جی چاہتا ہے قانون کو پھلانگنے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتے۔۔۔اس کے بر عکس قانون اپنا ہونے کا ثبوت دینے کے لیئے کمزور کو دبوچنے میں دیر نہیں لگاتا۔ ملک ریاض کو پاکستان کے منظر نامے میں۔۔۔سائنسی اور سماجی سائنسدان کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔اُس نے ایک ایسا نظام بھی تخلیق کیا۔۔۔جس میں ہر مسلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔۔۔اُس نے فائیلوں کو پہئے لگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔۔۔جس کا انکشاف اُس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا تھا۔۔۔ہمارے سارے ایوارڈ اور اعزازات اُس کے نام ہونے چاہیں۔۔۔اُس نے مسائل زدہ پاکستان کوایسا خود کار نظام دیا ہے۔۔۔ جس سے ہر کو ئی اپنے مسائل اپنی مرضی سے حل کر سکتا ہے۔۔۔ملک ریاض بھی اپنے مسائل اور مشکلات کو۔۔۔اسی نظام سے ہی آسانیوں میں بدلتا رہا۔۔۔اس سائنسی ایجاد نے ملک ریاض کی کامیابیوں کی رفتار کو۔۔۔ کئی ہزار گنا بڑھایا۔۔۔نہ کوئی حکومت اور نہ ہی کوئی سیاست دان۔۔۔اس کی راہ میں زیادہ دیر حائل رہ سکا۔۔۔وئہ اپنے کاروباری حاسدین اور مخالفین سے بھی اسی نظام سے محفوظ رہا۔۔۔محکمے اور ملازمین بھی اس کے معاون ہوئے۔۔۔صدر اور وزیر بھی اس پر شفیق رہے۔۔۔قانون نے بھی اُسے آسان راستے فراہم کیئے۔

نظام انصاف میں تجربات کی کامیابی میںاُسے مسائل اور مشکلات کا سامنا رہا۔۔۔وئہ کافی عرصہ اپنے نظام کی خرابیوں کو درست کرنے
میں لگا رہا۔۔۔بالااخر اس نے اپنے سسٹم کو اپڈیٹ کرکے۔۔۔اس فیلڈ میں بھی کامیابیوں کا سہرا اپنے سر سجا لیا۔۔۔اُس نے ٢ہزار
ارب وصول کرکے۔۔۔ہزاروںایکٹر زمین پر قبضہ کرکے نظام ِ انصاف کو ٤٦٠ ارب دینے کے وعدے پر۔۔۔اپنے اپ کو سرخرو کرا لیا۔۔۔صرف یہی نہیں۔۔۔بلکہ اس نے اپنے ساتھ ملوث تمام سہولت کاروں کو بھی۔۔۔قانونی شکنجے سے آزاد کرا لیا۔۔۔نیب کی
حسرتیں دل میں ہی رہ گئیں۔۔۔فائیلوں کو پہئے لگانے کی ٹیکنالوجی اور اس کے کامیاب تجربات پر ملک ریاض کو سلام۔
فائیلوں کو پہئے لگانے والے نظام کے کامیاب تجربات کے بعد۔۔۔ نظام انصاف کے لیئے۔۔۔کمزوروں،ضرورت مندوں اور عام ادمی کو انصاف فراہم کرنے میں۔۔۔شاید کوئی دلکشی نہیں رہی۔۔۔سائل ہی نظام انصاف کا سب سے بڑامشاہد ہ کارہوتاہے ۔۔۔امام عدل کسی دن انصاف کے سائلین کا دربا رسجائیں۔۔۔سائلین کے مسائل اور انصاف کے دکھ شیئر کریں۔۔۔ کسی دن انصاف کے فرنٹ لائن مورچوں کا دورہ کریں۔۔۔کبھی سائل بن کر اپنے نظام کا عملی مشاہدہ کریں۔۔۔تو مجھے یقین ہے کہ امام عدل آپ چین سے سو نہیں سکیں
انصاف کا غرور(٣)
گے۔۔۔نظام انصاف پر بات نہ کرنا اور بات نہ کرنے دینا۔۔۔نظام انصاف کے ساتھ منافقت ہے۔
نظام انصاف میں (انصاف کے غرور) کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

M.Farooq Khan

M.Farooq Khan

تحریر: محمد فاروق خان