اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور عدالت نے 9 ماہ 2 دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جب کہ فیصلہ 45 صفحات پر مشتمل ہے۔
عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی لارجربینچ نےچھ چارکے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا اور عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سریناعیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہےکہ اس عدالت کےجج سمیت کوئی قانون سے بالاترنہیں، کوئی بھی چاہے وہ اس عدالت کاجج کیوں نہ ہو اسے قانونی حق سے محروم نہیں کیاجاسکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کاحق رکھتا ہے جب کہ آئین کے آرٹیکل9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہیے، کھلی عدالت شیشےکےگھر جیسی ہے، ججزبڑوں بڑوں کےخلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ سرینا عیسیٰ سے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پوراحق نہیں دیاگیا، آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہرخاص وعام کابنیادی حق ہے لہٰذا صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، قانون کےمطابق فیصلوں سےہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھےگا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہےکہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ کے آزادانہ ٹیکس معاملات میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں جب کہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بھیجا جاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے، عدالتی فیصلےمیں کہا گیا تھاجوڈیشل کونسل کی کارروائی پرایف بی آرکے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی، ایسابھی ممکن تھا، چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہوجاتے، جج کی برطرفی کے بعدایف بی آرکیخلاف اپیل سرینا عیسیٰ کےحق میں بھی آسکتی تھی، برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے، ایسا بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر رپورٹ تسلیم نہ کرتی۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ ازخودنوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کےخلاف شکایت درج نہیں کرا سکتے، چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کےخلاف شکایت ہی تھی، سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا، ججزکےخلاف کارروائی صدرپاکستان کی سفارش پرسپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کاٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سےاکٹھا کیا گیا، مرکزی کیس میں بھی جسٹس قاضی فائز اور ان کی اہلیہ کا مکمل مؤقف نہیں سنا گیاتھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ کسی ایک جج کےخلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔