تحریر : شاہ بانو میر مسئلہ حقیقی تبدیلی کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ کمزور ہوتی سیاست کو پانامہ کا گلوکوز لگا کر زندہ کرنا تھا٬ سیاست زندہ ہو گئیاور ملک کا نظام نیم مُردہ ٬کل 5 جج صاحبان نے بیٹھنا ہے ٬ جن میں سے 2 پہلے سے نااہلی کا کہ چکے ہیں 40 فیصد فیصلہ آچکا ہے ٬ایک سوال ان جج صاحبان کی پھر سے بنچ میں موجودگی سے عوام کے ذہن میں کُلبُلا رہا ہے ٬انصاف کا اعلیٰ ترین ادارہ وہاں 5 میں سے 2 جج تو فوری فیصلہ کر دیتے ہیں۔
یہ اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ پیش کردہ ثبوت اتنے ٹھوس نہیں تھے کہ 5 جج صاحبان فوری طور پے بے ساختہ کہ اٹھتے کہ یہ نا اہل کر دیا جائے٬تین ججز جے آئی ٹی بنا کر واقعات کی گہری باریک بین تحقیق کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے وہ 60 روز کا تعین کرتے ہیں٬انصاف کا معیار کیا قائم ہوا؟کیا پہلے 2 جج صاحبان غلط ہیں جانبدار ہیں یا جلد باز ہیں کیا انہیں جے آئی ٹی یا مزید تحقیق نہیں کرنی چاہیے تھی٬ یہ حساس نوعیت کا بہت بڑا معاملہ تھا٬ پھر 2 جج صاحبان نے اتنی عجلت کے ساتھ کیوں نمٹانا چاہا؟یاد رہے کہ اس تفتیشی عمل کے دوران بہت سے ثبوت یورپ سے منگوانے تھے۔
یورپ کے بارے میں اتنی بات ہر وہ انسان وثوق سے کہ سکتا ہے جو میری طرح یہاں رہائش پزیر ہےکہ یہاں تو ہسپتال سے اپائنٹمنٹ 60 دنوں میں نہیں ملتی٬ کُجا کہ حساس نوعیت کی دستاویزات اتنی کم مدت میں مل جائیں ؟یہ دستاویزات لگتا ایسا ہے کہ بہت پہلے سے اکٹھی تھیں جنہیں حوالے اب کیا گیا ہے٬ کس نے اتنی تیزی سے وہ مہیا کیں ؟ یہ بھی سوالیہ نشان ہے۔
اتنے انبار کو اکٹھا کرنا پھر ان کا مطالعہ کر کے ان کے اندر سے مندرجات کو اکٹھا کرنا ٬ پھر کیا درست ہے کیا غلط اس کا تعین کرناجبکہ ساتھ ساتھ مسلسل ملزمان کی طلبیاں بھی جاری تھیں اور اس انبار میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا٬ کئی کئی گھنٹے کی تفتیش اور پھر اس ریکارڈ کو چیک کر کے کاغذات کا خاص ترتیب سے انتخاب کرنا کیا اتنی جلدی ممکن تھا؟ کیا وہ تمام ثبوت جو پیش کئے گئے واقعی ٹھوس اور انصاف کے عین مطابق ہیں۔ ٌ
ان پر فیصلہ بالکل شفاف ہوگا؟ کیا خود جے آئی ٹی ارکان اپنی اتنی برق رفتاری سے مطمئین ہیں؟ جس ملک میں انصاف کے کمزور ہونے کی دہائیاں فضاؤں میں گردش کر رہی ہوں وہاں 60 دنوں میں انصاف کا ایسا تیز رفتار ریلہ؟سبحان اللہ اس کے علاوہ اور بے شمار کمزوریاں ہیں ٬ جو سو فیصد انصاف کے عمل کو شفاف ظاہر نہیں کرتیں ٬ جتنا سنجیدہ اور حساس معاملہ تھا کیا اتنی سنجیدگی سے اس کی تحقیق ہوئی ہے۔
کیا وہ جو انبار کاغذات کا بڑے بڑے ڈبوں کی صورت ٹرالی میں لایا گیا کیا ان تمام کاغذات کو جج صاحبان نے بغور اتنے قلیل عرصے میں پڑھا؟ اس ایک کیس میں دباؤ بڑہاتے بڑہاتے ہم نے اس ملک میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر جو نیا معاشرہ تشکیل دیا ہے اس میں اب واقعی چوہدری نثار جیسے وضع دار باوقار مہذب اور سنجیدہ انسان کیلیۓ سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے٬ خدانخواستہ اگر فیصلہ نااہلی کا ہوتا ہے تو مت سوچیں کہ بات یہیں تھم جائے گی٬ اس کے بعد ملک کی سابقہ روایات کے مطابق آپ تیار رہیں کہ مزید بے شمار نااہلیاں ہونے جا رہی ہیں۔
منصفین!! یہ ملک شائد آپ کے انداز عدل کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا آپ نے بے ہنگم طریقے سے اس کیس کو سنا ٬ اب آپکو ہی بھگتنا ہوگا قطار لگ جائے گی نااہل کیسسز کی ٬ کس کس کو نہ کہیں گے آپ؟ اس ملک کی پارلیمنٹ ساری کی ساری صادق اور امین کے کٹہرے میں حاضر ہو کر آپ کی ایک غلطی کو نجانے مزید کتنی غلطیوں کی بنیاد بنانے والی ہے٬ پارہ 26 میں سورت محمدﷺ کی آیت نمبر 20 میں اللہ اپک فرماتے ہیں کہ “” اگر حکمرانی تمہیں سونپ دی جائے تو اندیشہ ہے کہ تم زمین میں فتنہ و فساد بپا کرو گے٬ “”عدم برداشت اور مخالف کو راہ سے ہر قیمت پر ہٹانے کی تحریکیں کمزور ذہن اور نحیف سیاسی طاقت ہونے کی واضح علامت ہے۔
مخالفت کریں مگر صحتمند طریقے سے جس سے آپکا ملک اس کا نظام متاثر نہ ہو ٬ جناب والا !! اس بار یہ کیس تاریخی نہیں سلاخی دکھائی دے رہا ہے٬ جس میں سیاست کی بُو اس قدر رچی بسی ہے کہ ہر خاص و عام ہی 1979 کو یاد کر رہا ہے۔
انصاف کا معیار اگر ایک ہوتا تو یوں قسط وار فیصلے نہ آتے بلکہ مضبوط ثبوت دیکھ کر حتمی اور یکساں فیصلہ آتا ایک وقت میں آتا جو ہر ایک کو قبول و منظور ہوتا ٬ ٬ سوالیہ نشان انصاف پر ہے کہ اگر انصاف کا معیار مقرر ہوتا تو فیصلہ یکساں اور ایک ہی وقت میں ایک جیسا سامنے آتا٬ وہ سچا بے لاگ کھرا انصاف ہوتا٬ جو تاریخی کہا جا سکتا تھا۔
نجانے کیوں کامیاب نظام کے گرائے جانے کی اس کوشش پر پر یہ حرماں نصیب ملک پاکستان اس کی عوام ان سیاستدانوں اور عدل کے بلند ایوانوں میں بیٹھے منصفین سے کہ رہی ہے کہ
اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی تم نے اِک عمر گزاری میری مسِماری میں