انصاف اس قدر نایاب کیوں

Justice

Justice

تحریر : عابد رحمت
وہ غریب لوگ تھے، انہوں نے کچھ لوگوں سے اپنی دی ہوئی خطیر رقم 80 ہزار روپے لینے تھے۔ قرض لینے والے پیسے لوٹانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، بارہاوہ غریب ان سے پیسے مانگنے گئے مگر انہوں نے پیسے دینے سے صاف انکار کر دیا، اس مسئلے پرکافی بحث بھی ہوئی ، ایک دوبار تو نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی، جنہوں نے پیسے دینے تھے وہ کافی بااثر(عرف عام میں بدمعاش ٹائپ )لوگ تھے ،انہوں نے دھمکیاں بھی دیں ۔اس پروہ بے چارے قانون کے پاس بھی گئے مگروہاں ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔کچھ دن قبل ایک بارپھروہ ان سے پیسوں کامطالبہ کرنے جاپہنچے ، پیسے تونہ ملے مگرانہیں مارڈالنے کی دھمکیاں ضرورملیں ، وہ لوگ آج بھی مایوس اورخالی ہاتھ گھرلوٹے ، رات ہوئی تووہ طاقت ورظالم جنہوں نے ان غریبوں کوپیسے توکیا دینے تھے ، الٹاان پراندھادھندگولیاں برسادیں ، دوانسان توموقع پرہی چل بسے جبکہ ایک خاتون شدیدزخمی حالت میں ہسپتال جاپہنچی ۔غریبوں کے گھرصف ماتم بچھ گئی ، موقع پرقانونی کاروائی نہ ہونے کی وجہ سے دوانسانوں کی قیمتی جانیں چلی گئیں ، پوراگائوں سراپااحتجاج بن گیا، لاشوں کوچوک میں رکھ دیاگیا، آمدورفت کانظام معطل ہونے کی وجہ سے پولیس کومجبوراًپہنچناپڑا، مذاکرات کے بعدورثاء نے لاشیں اٹھائیں ۔لیکن تاحال مجرم آزادہیں اورمقتول کے ورثاء دوانسانوں کے خون کابدلہ چاہتے ہیں ، وہ انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں ، ان کے پیارے عزیزان سے بچھڑگئے مگرابھی تک قاتلوں کوکیفرکردارتک نہیں پہنچایاگیا۔اب یہ قانون پرمنحصرہے کہ وہ ان غریب اورمظلوم لوگوں کوجلدازجلدانصاف فراہم کرے یاپھرانہیں قاتل بننے کے لئے چھوڑدے ، جنہیں انصاف نہیں ملتاان کے پاس ایک حل خودکو ختم کرلینابھی موجودہوتاہے ۔اب یہ حالات وواقعات پرمبنی ہے کہ وہ انصاف کے ان متلاشیوں کوکس ڈگرپرلے جاتے ہیں۔

مجھے توصدیوں قبل کاایک واقعہ یادآرہاہے ۔ایک گورنرنے ایک غریب عورت کی زمین پرغاصبانہ قبضہ کرلیا، وہ عورت اپنامقدمہ قاضی کے پاس لے گئی، قاضی صاحب ابھی عدالت ختم کئے اٹھنے ہی والے تھے کہ یہ عورت جاپہنچی اوراپنامقدمہ پیش کردیا۔قاضی صاحب نے مقدمہ سنتے ہی فوراًاس عورت کوانصاف فراہم کرتے ہوئے گورنرکوعدالت میں بلالیا۔گورنرنے قاضی کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے اس عورت کواس کی زمین لوٹادی۔ یہ قاضی شُریک اورگورنرخلیفہ وقت مہدی کاچچا زادبھائی (کزن) موسیٰ بن عیسیٰ تھا۔ایسے اوربھی کئی واقعات تاریخ اسلام کے درخشاں پہلوہیں ، اختصارکے پیش نظرایک ہی ذکرکرناکافی سمجھا۔

یہ ہماراوہ تابناک ماضی اور گم گشتہ عظمت ہے جس کے بل بوتے پرہم دنیاوالوں پراپناحق جتاتے ہیں ۔یہ سب اک سہاناخواب سامعلوم ہوتاہے مگرتاریخ اس کوحقیقت بتلاتی ہے ، یہی اسلام کاحقیقی وصف اوربنیادی خوبی ہے۔اگریہ سب حقیقت ہے توپھرہمارے ملک میں انصاف اس قدرنایاب بلکہ ناپیدکیوں ہے ؟ ایک عام آدمی توانصاف کے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھاتا، ہرتاریخ اورپیشی پروقت سے پہلے عدالت میں حاضر ہوتا ہے مگرپھربھی اس کی حسرتِ انصاف حسرت ہی رہتی ہے۔عدل وانصاف کے نایاب ہونے کی یہ انتہاہے کہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔کچھ کہتے ہیں کہ انصاف توبک چکاہے مگرانصاف کے خریدارتوخودانصاف کے متلاشی ہیں ۔ہمارے انصاف کی یہ حالت ہے کہ 60لاکھ ڈالرسمگل کرنے والی ایان کوتوجیل میںدنیاکی ہرآسائش میسرہواوراسے جیل سے نکال کردبئی بھجوادیاجائے جبکہ ایسی ہی ایک جیل میں بابرہ عورت حالت زچگی میں ایڑیاں رگڑرگڑکراپنے لئے علاج کی سہولت مانگے مگراسے سہولت دینے سے انکارکردیاجائے اورہسپتال کی جگہ قبرستان پہنچادیاجائے ۔ وہ بشریٰ فریدجوجج کی کرسی پربیٹھ کر لوگوں کوتوانصاف فراہم کرتی رہی مگر خود انصاف کے لئے تین سال سے عدالتوں میں دھکے کھانے پرمجبورہے ۔جب جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی، جسٹس فرخ عرفان ، محمدانورکاسی اورجسٹس شوکت عزیزصدیقی جیسے معززجج انصاف کے لیے دربدرہونگے توپھراس صوبیدارنذیرمحمدخان کوکون پوچھے گا، جو گزشتہ پچپن سالوں سے درجن سے زائدمقدمات لڑنے کے باوجودبھی انصاف کے لئے تڑپتاہے ۔اس شخص کوکون یادرکھے گاجوکئی سال جیل میں رہنے کے بعددم توڑگیااورعدالت نے اسے باعزت بری کردیا۔اس انسان کوکیسے بھلایاجاسکتاہے جسے چوری کے مقدمے میں اندرکردیاگیااور30سال بعدبے گناہ قراردیاگیامگروہ انصاف سے بے انصافی کی وجہ سے وہیں پڑا سڑتا رہا۔

جب غریب کوانصاف نہیں ملتاتوپھروہ کھلی کچہری میں قتل کرکے پھانسی کے پھندے پر نہ جھولے توپھرکیاکرے ۔جب انصاف انسان کی دسترس سے باہرہوتوپھرانسان تھانے میں افسران اورحوالداروں کے سامنے خودسوزی نہ کرے توکیاکرے۔جب انصاف کے محافظ وکلاء آئے دن ہڑتالیں کریں اوران کے خلاف 7500سے زائدشکایات درج ہوں توپھرانصاف کاپیاساڈوب کرنہ مرے توکیاکرے۔جب انصاف روٹھ جائے توپھرایک انسان اپنے بیوی بچوں کوقتل کرنے کے بعدخودکشی نہ کرے توپھرکیاکرے۔

عرصہ ہواانصاف اپنے ساتھ بے انصافی کی وجہ سے رخت سفرباندھے نجانے کن گمنام وادیوں میں جاچھپاہے ، ہزارتلاش بسیارکے بعدبھی انصاف نظروں سے اوجھل ہے ، کتنی زندگیاں کھپ گئیں ، نگاہیں ڈھونڈتی ڈھونڈتی اپنی بینائی کھوبیٹھیں ،جوتیوں کے ساتھ ساتھ ایڑیاں تک گھس گئیں، ججزانصاف کوعدالتوں میں پڑی فائلوں میں تلاش کرتے ہوئے تھک گئے ، عوام انصاف کے لئے خوارہے ، حکمران انصاف سے نالاں ہیں یاپھرانصاف حکمرانوں سے بیزارہے، قانون ماراماراپھرتاہے مگرانصاف کاکہیں بھی نام ونشان نہیں ۔گزشتہ سترسال سے پاکستان میں انصاف کی تلاش جاری ہے ۔ڈھونڈیں توکہاں ، جائیں توکدھر، کہیں توکس سے ، ہماراکوئی پرسان حال نہیں ۔سب ہی اوپرسے نیچے تک ، اعلیٰ سے ادنیٰ تک ، مجرم سے قانون تک ، گھرسے عدالت تک انصاف کو تلاش کیا جا چکا ہے مگر انصاف ہے کہ ندارد۔

Muhammad Abid

Muhammad Abid

تحریر : عابد رحمت