جب تک ہم خود انصاف نہیں کریں گے

Justice

Justice

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
اگر ہر انسان خود کو دوسرے کی جگہ پہ رکھ کر سوچے تو اس سے کبھی بے انصافی نہ ہو ہم سب کا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو تو الزام دینے میں جلدی کرتے ہیں لیکن اپنا قصور قبول نہیں کرتے یہ ہماری کمزوری ہے یا مجبوری یا خودغرضی یا معاشرے کا جبر لیکن ہم کبھی بھی اس وقت تک معاشرتی رویوں کو تبدیل نہیں کر سکتے جب تک ہم سب اپنے اپنے کردار ادا نہ کریں جو بحیثیت انسان ہم پر واجب ہوتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ حق کی را بڑی کٹھن ہوتی ہے اس پر چلنا آسان نہیں لیکن جب لوگ چلتے رہتے ہیں تو کاروان بنتا رہتا ہے تب منزل ملتی ہے ورنہ یہ جذباتی تقریریں، اصلاحی تحریریں وقتی طور پر واہ واہ تو کرا سکتی ہیں ان سے معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔

یا پھر ہم کسی ایک آدمی کے پیچھے لگ جاتے ہیں کبھی اسکی جے جے کار کرتے ہیں اس کو سر پہ بٹھا لیتے ہیں لیکن اس خاکی پتلے سے ذرا سی غلطی ہو اسے زمین پہ دے ماریں گے تعریفوں کے پھول گالیوں کے پتھر بن جاتے ہیں کہ وہ بے چارہ یہ پتھر سہہ سہہ کر یا تو خود بھی پتھر بن جاتا ہے یا آگے چلنے سے توبہ کر لیتا ہے اس لیے ہمیں آج تک اچھی قیادت نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ہم کسی کو اچھا رہنے ہی کب دیتے ہیں ذرا سوچیے ایک لڑکی تقریر کر رہی تھی کہ عالی وقار سن سکتے ہو تو سن لو جب کوئی جاگیردار کسی غریب مزارع کی بیٹی کو اٹھا کے لے جاتا ہے تو اس ظلم پہ آسمان بھی روتا ہے لیکن میں اس سے پوچھتی ہوں ظالم جاگیردار کبھی خود لڑکی اٹھانے نہیں جاتا اس کے ساتھ اس کے کارندے ہوتے ہیں یا لڑکی اٹھانے صرف کارندے جاتے ہیں جو ایک جاگیردار کے ایما پر اپنے ہی جیسے کسی غریب کی بیٹی کو اٹھا کے جاگیردار کے عشرت کدے میں پہنچاتے ہیں ۔

وہ کارندے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں وہ اس ظلم سے انکار نہیں کرتے کیوں؟ایک ظالم چودھری کسی غریب کاشکار پر کتے چھڑوا رہا ہوتا ہے وہ یہ کتے خود نہیں چھوڑتا اس کے پالتو ملازم چھوڑتے ہیں وہ خود بھی غریب ہوتے ہیں تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں وہ چودھری کو اس ظلم سے باز نہیں رکھتے بلکہ قہقہے لگاتے ہیں کیوں؟ایک محلے کے اندر ایک جعلی دودھ بنانے والی فیکٹری لگتی ہے محلے کے کچھ لوگ اس میں ملازمت بھی حاصل کر لیتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے یہ زہریلا دودھ بناتے ہیں جو قوم کے معصوم بچوں کے حلق سے اتارا جاتا ہے وہ جانتے بھی ہیں اور تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہ اس ایک مالک کو اس گھنائونے جرم سے باز نہیں رکھتے کیوں؟ایک ادارے میں کرپشن ہو رہی ہے سینکڑوں ملازم دیکھ رہے ہیں یہاں غلط کام ہو رہا ہے لیکن وہ تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود اس جرم کی راہ نہیں روکتے کیوں؟جعلی اور بوگس ووٹوں کی وجہ سے ایک سچا آدمی اپنی سیٹ سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ ضمانت ضبط کروا بیٹھتا ہے صرف اس لیے کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے اس کے پاس غنڈے بدمعاش نہیں ہوتے اور ایک کرپٹ ،لٹیرا ، بدمعاش وہی سیٹ آسانی سے جیت لیتا ہے حلقے کے لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں دھاندلی ہوئی ہے خاموش رہتے ہیں سچ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے کیوں؟الیکشن کمیشن قوم کے ٹیکسوں پر پلنے والا ایک ادارہ ہے وہ جانتا ہے۔

Election

Election

الیکشن میں کس نے دھاندلی کی کس نے اثاثے چھپائے کون نا جائز دبائو ڈال رہا ہے وہ یہ سب جان کر بھی اس دھاندلی کا حصہ بن جاتا ہے کیوں؟عوام کے ووٹوں سے بنی پارلیمنٹ جس میں بیٹھے سب وزیر مشیر ارکان اسمبلی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیش کر رہے ہوتے ہیں فری بجلی ،فری گیس ،فری گاڑیاں ،فری پیٹرول فری علاج معالجہ ،فری کھابے ،مفت کے فارن ٹوور وہ کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ حکومت نے ان سے ڈیسک بجوا کے جو بل پاس کروایا ہے وہ ہے کیا کہیں اس میں غریب عوام کو رگڑا تو نہیں لگایا گیا کہیں ملکی سلامتی کو دائو پر تو نہیں لگایا گیا وہ بل کی کاپی پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے کیوں؟سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ جو خود نان کوالیفائڈ ہوتے ہیں وہ جانتے ہیںکہ ہم صرف تنخواہیں وصول کرنے آتے ہیں کیونکہ بچے یا تو ٹیوشن پڑھتے ہیں یا ماں باپ کو سر کھپانا پڑتا ہے ان کا کام صرف ہوم ورک دینا ،آئے روز طرح طرح کے فنڈز لینا اور تنخواہ وصولنا ہوتا ہے وہ جانتے ہیں ہم اپنی نئی نسل کو تباہ کر رہے ہیں لیکن وہ اپنی روش نہیں بدلتے کیوں؟ڈاکٹر کو اپنے پیشے سے عشق ہوتا ہے وہ انسانیت کی خدمت کا درس لے کر اس فیلڈ میں آتا ہے لیکن جب وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ انسانیت کو فائدہ پہنچا سکے وہ اپنا فائدہ سوچنے لگتا ہے اپنا کلینک اپنا ہسپتال کھڑا کرنا لمبی لمبی فیسیں بٹورنا ،گھنٹوں مریضوں کو انتظار کرانا ،ان کی آہوں چیخوں سے سرف نظر کرنا اس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔

وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ اگر میں ہفتے کا صرف ایک دن غریب مریضوں کے لیے وقف کر دوں ان سے فیس نہ لوں اس کا اجر اللہ دے گا لیکن وہ ایسا نہیں کرتا کیوں؟ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں اس کے مقابلے میں ڈاکٹر کم ہوتے ہیں نائٹ ڈیوٹیوں نے انہیں بے حال کیا ہوتا ہے بڑے ڈاکٹروں کی عدم موجودگی انہیں کنفیوز کر دیتی ہے کئی مریض ان سے سنبھلتے نہیں جن کی جان چلی جاتی ہے لیکن مریضوں کے لواحقین یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس ڈاکٹر کو ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی اس ڈاکٹر کا گریبان پکڑ لیتے ہیں اس پر تشدد کرتے ہیں توڑ پھوڑ کرتے ہیں کیوں؟ایک وکیل یہ جانتا ہے کہ اس کے پاس آنے والا سائل اس کی ذمہ داری ہے وہ اس سے لمبی فیسیں بٹورتا ہے اور لمبی لمبی پیشیاں ڈلواتا ہے وہ جانتا ہے یہ سائل اپنا مال مویشی بیچ کر یا گھر گروی رکھ کر یا سود پے رقم اٹھا کر اس کی فیس بھر رہا ہے لیکن وہ اس پر ترس نہیں کھاتا کیوں؟ایک جج جو انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے وہ عرش کے سائے میں ہوتا ہے اس پر بڑی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن وہ کسی صاحب اقتدار کی تڑی پر یا کسی بدمعاش کے خوف سے یا وزنی لفافہ وصول کر کے انصاف کا خون کر دیتا ہے اس کو اللہ کا خوف نہیں آتا کیوں؟ایک دکاندار یا کاروباری تاجر جو اگر ایماندار ہو تو اللہ کے نبی کے ساتھ کھڑا ہوگا لیکن وہ جانتے بوجھتے غلط مال بیچتا ہے دو نمبریاں کرتا ہے ٹیکس بچاتا ہے فراڈ کرتا ہے۔

Law

Law

اس کو اپنے مرتبے کا پاس نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے نبی کے ساتھ کس طرح کھڑا ہو گا کیوں؟معاشرے میں حرام حلال کی تقسیم کے زمہ دار لوگوں کو مری ہوئی مرغیاں،بیمار جانوروں کے گوشت ،حتی کے کتے اور گدھے تک کھلا رہے ہیں ان کو ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا کیوں؟ہمارے حکمران جو خدا کا سایہ کہلاتے ہیں ان ساری برائیوں کے ذمہ دار ہیں یہ کوئی جواب نہیں ہے کہ فلاں نے ایسا کیا تو ہم کیوں نہ کریں جو اگر چاہیں تو ہر برائی کو اپنے قلم کی ایک نوک جنبش سے ٹھیک کر سکتے ہیں وہ اپنے عہدے پر ملک و قوم کی بھلائی کا حلف اٹھا کر براجمان ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے ہی بنائے قانون سے کھلواڑ کرتے ہیں عوام کا استحسال کرتے ہیں قومی خزانے کا بے دردی سے استعمال کرتے ہیں اپنی جائدادیں بناتے ہیں قوم کو بھوک ننگ اور قرضوں میں جکڑ دیتے ہیں قوم کی حفاظت کرنے والوں کو صرف اپنی حفاظت پر معمور کر دیتے ہیں جس عوام کی کمائی خرچ کرتے ہیں ان کے قریب جانا گوارہ نہیں کرتے صرف ووٹ مانگتے وقت شکل دکھاتے ہیں ان کو اس فعل پر کوئی شرمندگی نہیں ہوتی کیوں؟پولیس کا ہے فرض مدد آپکی لیکن وہ لوگوں کی چھتیں ٹاپتی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتی نظر آتی ہے جعلی مقابلوں میں لوگوں کو پار کرنا ملزموں کو مجرم بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اپنے اس شرمناک کردار پر انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی کیوں؟ہمارے علمائے دین جن پر امت کی رہنمائی کا فریضہ عائد ہوتا ہے وہ اس کام کو چھوڑ کر صرف پلاٹوں اور پرمٹوں کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں اپنے گھر میں ہر وزارت کا مزہ چھکنا چاہتے ہیں۔

جو لفافہ لیکر فتوے بیچتے ہیں جو احترام آدمیت کا درس دینے کی بجائے فساد اور نفرتیں پھیلاتے ہیں جو مسجدوں کو امن کی بجائے سازشوں کا گہوارہ بنا دیتے ہیں جو معصوم بچوں کو اپنے اپنے مسلک کا پیروکار بنا کر دین کو متنازعہ کر دیتے ہیں وہ دین جس کے لیے اللہ کے رسول نے اپنے آخری خطبے میں کہا تھا دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی نہیں بھٹکو گے لیکن وہ بھٹک گئے ہیں کیوں؟ ایک ہمارے قلم کے جادوگر ہیں جن کواللہ نے قلم کی قسم کھا کر ان کے ہاتھ میں قلم تھمایا ہے وہ آج سب سے زیادہ برائیوں میں لتھڑے ہوئے ہیں عیش و عشرت کے لیے اپنے منصب سے گر گئے ہیں وہ کہتے ہیں اگر کرپٹ سیاستدان ختم ہو گئے تو ہماری روزی روٹی کا کیا ہو گااگر کوئی ایماندار لیڈر آ گیا تو وہ سب سے پہلے ہمیں جیلوں میں ڈالے گا اپنے قلم سے معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کرنے والے صرف لفافوں اور پلازوں میں بٹ گئے ہیں کیوں؟جب میں ان سب سے مایوس ہوتی ہوں تب مجھے صرف ایک ہی ادارہ باقی بچا نظر آتا ہے وہ ہے پاک فوج ،جس کی کوئی ذات نہیں ،جس کا کوئی مسلک نہیں ،جو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کرتی ہے جو اپنی تنخواہ بڑھانے کے لیے کبھی سڑکوں پہ نہیں آتے ،جو ہر لمحہ ملک و قوم کی حفاظت کے لیے چوکس رہتے ہیں جو اپنی قوت ،اپنی استعداد یہ سوچ کر بڑھاتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ کر سکیں نہ کہ تنخواہ بڑھائیں جو ملک اور ملک سے باہر اپنے وطن کے سفیر ہوتے ہیں جن کے سینے پر صرف ان کا نام لیکھا ہوتا ہے عہدہ نہیں وہ سپاہی مقبول حسین ہو یا آرمی چیف راحیل شریف جو پاکستان زندہ باد کہنے کے لیے جان لٹا دیتے ہیں اور مردہ باد نہ کہنے کے لیے زبان کٹوا دیتے ہیں۔

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی