گرے دانے منصفی کے

Judiciary

Judiciary

تحریر : شاہ بانو میر

نہ جا اس کے تحمل پر کہ بیحد ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ سخت ہے انتقام اس کا

بھلے وقت کی بات ہے کہ انتہائی متقی تاجرکی وفات ہوئی اور اس کو کسی نے خواب میں دیکھا
پوچھا حضرت آپ نے اللہ کے خوف سے ڈر ڈر کے زندگی گزاری بتائیے وہاں معاملہ کیا ہوا ؟
انہوں نے جواب دیا کہ سب میں رہائی ملی مگر تولتے وقت کچھ دانے جو ترازو سے دائیں بائیں گر جاتے تھے نہ خریدار اٹھانے کو کہتا کہ یہ بھی ترازو میں ڈالو اور نہ میں خیال کرتا کہ ترازو سے گرے ہیں۔

خریدار کے جانے کے بعد میں جگہ صاف کرتا تو وہ گرے ہوئے چند دانے دوکان میں موجود اناج میں شامل کر دیتا ، ابھی تک ان کا حساب مکمل نہیں ہو رہا، چند دانے جس میں خریدار کا گلہ یا شکایت یا اعتراض بھی نہیں تھا ، ان پر ایسا حساب یہی ہے میرے رب کا حساب جسے بخشنے پے آئے گا پہاڑ کے برابر انبار گناہوں کے معاف کر دے گا ، اور جس کی پکڑ کرنا چاہے تو ایسے ہی چند دانے اناج کے بھاری کر دے گا ، زندگی کے ہر شعبے میں عدل انصاف کا حکم ہمیں دیا گیا ہے ، عام انسان اس معاشرے میں کیسے انصاف یا عدل قائم کرے جہاں منصف ہی عدم توازن کا شکار ہو گئے، جس طرح ایمان جہاں آتا ہے وہ بکھرے ہوئے بٹے ہوئے لوگوں کو جوڑتا ہے، اگر کسی جگہ ایمان آئے اور لوگ منتشر ہو یا ایک دوسرے سے شاقی ہوں تو سمجھ لیں کہ وہ درست ایمان نہیں ہے ، اسی طرح کہیں انصاف کی پکار ہو اور انصاف کے معیار پرقوم اور خود عدلیہ تقسیم ہو جائے تو سمجھ لیجیۓ کہ انصاف عدل کے مقررہ معیار پر نہیں پہنچا جو اس کا اصل تقاضہ تھا،
کہیں گڑبڑ ہے۔

ماضی میں عوام نے فوج جیسے معتبر اور مستحکم ادارے کو باور کروا دیا ہے کہ آپ کی عزت احترام سر آنکھوں پر مگر آپکی جگہ سرحدوں کی حفاظت ہے ، سیاست کا شاطر کھیل آپکے بس کی بات نہیں ، یہی وجہ ہے کہ الحمد للہ اب فوج بھرپور انداز میں اپنے ادارے کے معاملات کو احسن انداز سے چلا رہی ہے ، اب منصفی اپنے دائرہ کار سے ہٹ کر ان سیاسی معاملات میں ملوث کی جا رہی ہے موجودہ سیاسی عدالتی متنازعہ فضا پاکستان کے اندر بڑہتی ہوئی تشویشناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے، بد نصیبی یہ ہوئی کہ پہلے فیصلے میں منقسم منصفین کی وجہ سے معاملہ مشتبہ ہو گیا، ستم بالائے ستم کہ اتنی معزز عدلیہ اور ریمارکس ذاتی بغض کا تاثر دینے لگے ، پے درپے ایسے جملے جو کسی طور کسی اعلیٰ پڑھے لکھے انسان کے منصب پر پورے نہیں اترتے وہ سننے کو ملے توعوام بھی چونکی ، عدلیہ کے ریمارکس عوام کو کسی ٹھیلے والے کی یا موچی کی یا غنڈے موالی کی یا جھونپڑ پٹی جیسے لگے اس سوچ کو انداز کو عوام کے ہر طبقے نے مسترد کر دیا۔

خود عدلیہ کے فاضل اراکین حیران و ششدر رہ گئے ایسی سطحی عدالتی تشریح پر، اس کا خوفناک نتیجہ وہی نکلا جس کا امکان تھا ریاست کے 2 اہم ستون انتظامیہ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو برملا جو کہ رہے ہیں، اس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی، اہل دانش کیلیۓ سوال سامنے آرہا ہے کہ کیا جج جیسے اعلیٰ عہدے پر فائض کسی شخص کو کیس کی ججمنٹ میں چور ڈاکو جیل قید نا اہل ڈکیت جیسے الفاظ استعمال کر کے وقت سے پہلے اپنے فیصلے کو اپنی نیت سے ظاہر کرنے چاہیے؟ گرجتے برستے بد لحاظ سیاسی کلچر کو عوام نے”” مسترد مہر “” لگا کر واضح کر دیا ہے کہ وہ باشعور ہو چکے ہیں اور مہذب بھی، پاکستان جائیں تو 70 سال میں پہلی بار آپکو نمایاں تبدیلی دکھائی دیتی ہے جو اس سے پہلے صرف سیاستدانوں کی باتوں تک محدود رہی ، پورا ملک ایک دوسرے سے کشادہ بارونق شاہراہوں سے یوں متصل کیا گیا ہے کہ نوجوان نسل مختلف کاروباری مراکز سے منسلک ہیں اور پُر امید ہیں ، سحان اللہ کارکردگی سامنے ہو اور اسے تسلیم نہ کیا جائے ایسا اب ہو نہیں سکتا ، عوام باشعور ہو گئی ہے، خوشحال پاکستان بہت قریب عوام کو بہت قریب دکھائی دے رہا تھا کہ ناگہاں یہ سب ہو گیا جس نے نہ تو حکومت گرائی اور نہ وقت سے پہلے الیکشن کے شور شرابے کو منظور کیا ، ہوا تو صرف یہ کہ ایک بار پھر عوام ترقی سے خوشحالی سے صرف سیاست کی وجہ سے دور کر دی گئی۔

عدلیہ کا سیاست میں کودنا اور تذبذب کا شکار ہو کر یوں کسی سیاسی قیادت کو رسوا کرنا خود ملزمان کے حق میں چلا گیا ، اب منظر کچھ یوں ہے کہ ایک طرف منصفین کی بےخوف رائے ہے جو شائد نہیں ہونی چاہیے تھی ، جس قسم کا ماحول اس وقت ہے ، دوسری جانب عزت نفس کو مجروح کرنے پر جس قدر طاقتور احتجاج سامنے آ رہا ہے وہ صاف بتا رہا ہے کہ وہ جسے کرسی پر رہنے دیتے تو بے ضرر تھا اب زخمی شیر بن چکا ہے ، وہ جو کبھی دھیمے لہجے میں بات کرتا تھا ، اب باقعاعدہ دھاڑ کر عوام کی عدالت میں دلیل سے بات کر رہا ہے، وہ منصفین کے ترش سخت اور جانبدارانہ انصاف کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔

منصفین اگر زبان کو کم ہلاتے اور فیصلے وقت سے پہلے بول کر نہیں بلکہ درست وقت پر لکھ کر سناتے تو شائد ایسا ردّعمل سامنے سے نہ آتا ، اس وقت سیاسی فضا میں رچی سیاسی بارود کی بو نجانے کیوں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کہ اگر کوئی فیصلہ یہاں ایسا آیا جو امکانِ غالب ہے تو پھر 1 مائنس نہیں ہوگا ان کے ساتھ کسی اور کو مائنس ہونا ہوگا ، جو کینوس پر منظر ابھرتا ڈوبتا دکھائی دے رہا ہے نظام عدل پر سازش کا گھناؤنا الزام لگ چکا ہے ، کچھ تجزیاتی آوازیں فوج کے چند لوگوں کی شمولیت پر مُصر ہیں ، یہ سارے الجھاؤ اس وقت مزید الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جب کمرہ عدالت سے ہر بار ایک سے ایک طنزیہ جملوں کی گونج اٹھتی ہے، ملک میں عوام کا بپھرا ہوا ہجوم جلسوں میں شمولیت سے بتا رہا ہے کہ سیاسی ماحول خطرے کے نشان کے قریب قریب ہے۔

امکانات دو قسم کے ہیں اس ملک کا نظام یا تو اب مکمل سیاسی تبدیلی سے بدلے گا جس میں مائنس 1 نہیں ہوگا۔ بلکہ ساری سیاسی قیادت ہی مائنس ہونے جا رہی ہے ، یا پھر عدالت ایسی بند گلی میں جا کھڑی ہوگی جہاں سے نکلنے کا راستہ نہ پا کر وہ واپس اپنے دائرہ کار میں سِمٹ کر فوج کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ اس سیاسی بساط سے پرے ہٹ جائے گی، عدلیہ کے طریقہ کار پر سخت تنقید اس کے اپنے ہی ادارے کے کالے کوٹ کر رہے ہیں، کاروائی متنازعہ ہونے سے فیصلہ اس ملک میں انتشار کا سیاسی ہنگامہ خیزی کا ایسا دور لا سکتا ہے کہ جس کے نتیجے میں شائد یہاں سیاست کا دور جو ہر حد ہر قید کو توڑ رہا ہے اس کو ختم کر دیا جائے ، جج صاحب یہ پہلا کیس نہیں ہے نہ یہ پہلا کرپٹ سیاستدان ہے، ذرا سب سیاستدانوں کی فائلیں چیک کریں آپکو پتہ چلے گا ایک سے ایک بڑھ کے منی لانڈرر ہے۔

مشرف آپ کے انصاف کیلیۓ کھلا چیلنج ہے اس لئے صرف ایک سیاستدان کو پکڑ کر آپ سب کو پاک قرار نہیں دے سکتے ، باقی سیاستدان اوپر بیان کئے تاجر کے ترازو کے نکلے ہوئے وہی دانے ہیں جن کا حساب وہ ابھی تک مکمل نہیں کر سکا ، سوچیں آپ سے بہت بڑا منصف اوپر بیٹھا آپکو دیکھ رہا ہے اور دائیں بائیں بیٹھے مکرم فرشتے بھی نیت سمیت سب درج کر رہے ہیں “”باقی سیاستدانوں سے چشم پوشی”” دراصل آپ کے گرے ہوئے دانے ہیں جن سے آپکا تجاہلہ عارفانہ “” شک کا فائدہ “” دے کر بچا رہا ہے؛ وہی عادل جس کا عدل سیاست سے ذاتیات سے پاک شفاف اور فیصلہ کُن ہے ، ایسا نہ ہو کہ گرے ہوئے یہ چند دانے جو آپ سے گر گئے یا آپ نے گِرا دیے کل آپکی سخت پکڑ کا باعث بن جائیں ،،،،،سوچیں ،،،،

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر