کسی بھی ریاست کے استحکام کا سارا دارومدار عدل و صداقت کی میزان کو قائم رکھنے پرہوتا ہے لیکن اگر عدل و صداقت کی میزان کے پلڑے کو بزورِ قوت اپنی جانب جھکا لیا جائے تو پھر ریاست اپنا تشخص کھو دیتی ہے اور لوگوں کا نظامِ حکومت پر اعتماد متزلزل ہو جا تا ہے ۔ جب ریاست کے کرتا دھرتا اپنے مخالفین کو جینے کا حق دینے کیلئے تیار نہ ہوں اور اپنے سوا سب کو بد دیانت اور وطن دشمن تصور کرتے ہیں تو انصاف اپنے معنی کھو دیتا ہے ۔ جوشِ جنوں میں مخالفین کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر ذاتی انا کی تسکین کا نتیجہ انتشار کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ریاست کی پشت پناہی حاصل ہو تو مخالفین کو زیر کرنا ان کا پہلا ہدف ہوتا ہے لہذا ان کی دلی حوا ہش ہوتی ہے کہ مخالفین کو جیلوں میں نظر بند کر دیا جائے تا کہ ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے والا کوئی شخص میدان میں موجود نہ رہے۔پاکستان میں الزاماتی سیاست کی تاریخ کافی قدیم ہے لہذایہاں سیاستدان سدا ہی زندانوں کے مہمان بنے ہیں ۔ریاست کی اندھی قوت کے سامنے ٹھہرنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہوتا لہذا مخالفین کے پاس جیلوں کی ہوا کھانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔وہ جیلوں میں چلے تو جاتے ہیں لیکن پھر عالمی دبائو اور ملکی حالات کے جبر کے تحت انھیں جیلوں سے رہا کرنا پڑتا ہے۔جسے یقین نہیں آتا وہ جنرل پرویز مشرف سے پوچھ لے۔
بند مٹھی میں بزور دبوچی گئی شہ ایک دن بند مٹھی کو کھول کر ہی دم لیتی ہے کینوکہ وقت کا جبر مٹھی کے دبائو کو کم کرتا رہتا ہے۔آجکل اپوزیشن کی صفِ اول کی قیادت جیلوں میں محبوس ہے اور حکومت ان کی کردار کشی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ۔کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں اور موجودہ حکومت کی صفوں میں بھی وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن حکومت کے پاس ان کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنے کا وقت نہیں آیا ۔اقتدار کی خاطر ایسے عنا صر کی اشد ضرورت ہے لہذا وہ سارے کے سارے پارساء اور نیکو کار قرار ٹھہرے ہیں ۔ پشاور کا بی آر ٹی منصوبہ انتظامی بد نظمی اور مالی بد عنوانیوں کا شاہکار منصوبہ ہے لیکن مجال ہے جو حکومت اس کا اعتراف کرے اور اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے قانون کی بالادستی کا ثبوت دے ۔کیا ملائکہ کو جیلوں میں بند کیا جا سکتاہے ؟ کیا فرشتوں سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے؟ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر بی آر ٹی کے کرتا دھرتا کیسے جیلوں میں ٹھونسے جاسکتے ہیں؟انھیں تو اعزازی سندیں عطا کی جانی چائیں کہ انھوں نے اتنے بڑے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا اور اربوں روپوں کو عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ان کا نام کرپشن کے ساتھ جوڑنا زیادتی ہے اور حکومت ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔کرپشن کاسارا ملبہ تو سابق وزرائے اعظم اور ان کی حکومتوں پر گرایا جانا چائیے کہ انھوں نے بجلی اور گیس کے بڑے بڑے منصوبے کیوں شروع کئے اور عوام کو اندھیروں سے کیوں نکالا ؟کیا آج کا پاکستان وہی ہے جو بیس سال قبل تھا؟ کیا اس میں ہسپتال، ائیر پورٹس ،شاہرائیں ، پاور پلانٹس ، گیس اور تعلیم کے منصوبے نہیں لگائے گے ؟ احتساب ضروری ہے لیکن احتساب کے نام پر انتقام کی روش کو فروغ دینے سے پورا جمہوری ڈھانچہ تہس نہس ہو جائیگا۔ہماری جمہوریت بڑی قربانیوں کا صلہ ہے لیکن کچھ کم عقل اور کوتاہ ذہن افراد کو اس کا ادراک نہیں ہے۔وہ ریاستی جبر سے انصاف کا ڈھول پیٹنے کی مشق کر رہے ہیں اور دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے مخالفین انتہائی کرپٹ اور بد عنوان ہیں حالانکہ ان کی بد عنوانی کو ثابت کرنے کیلئے ان کے پاس کافی شواہد موجود نہیں ہیں۔میڈیا ٹرائل سے اگر کسی کو مجرم ثابت کیا جا سکتا تو پھر ساری اپوزیشن کو سزائیں ہو چکی ہوتیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا ٹرائل کے اثرات زائل ہو رہے ہیں۔کئی افراد ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں اور جن کے مقد مات ابھی عدالتوں کے روبرو پیش نہیں ہوئے وہ بھی اسی قطار میں کھڑے ہیں۔ جس دن ان کے ریفرنس عدالتوں کی سامنے پیش ہو ں گے ان کی ضمانتیں بھی ہو جائیں گی کیونکہ شواہد کی عدم موجودگی میں عدالتوں کو یہی کرنا ہوتاہے۔شرجیل میمن،حنیف عباسی ، عبدالسلام اور میاں محمد شہباز شریف کے معاملات میں یہی ہوا ہے۔،۔
ہمارے ہاں دبائو کے تحت فیصلے کروانے کا چلن موجود ہے۔مقتدر حلقوں کی خو شنودی مقدم ہو تی ہے لہذا اہم فیصلے ان کی خوشنودی کو سامنے رکھ کرکئے جاتے رہے ہیں۔اس بات کا اعتراف تو خود منصفوں نے بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس روش کو خیر باد نہیں کہا گیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملک عبدا لقیوم کی عدالت سے جو سزا سنائی گئی تھی وہ بھی دبائو کا نتیجہ تھی لہذا ویڈیو کیسٹ کے افشاء ہو جانے کے بعد دی گئی سزا کالعدم ہو گئی تھی ۔سزا دینے والوں سے کسی نے باز پرس نہیں کی تھی اور نہ ہی انھیں کوئی سزا دی گئی تھی حالانکہ انھیں سخت سزا دینی چائیے تھی تا کہ بعد میں دبائو میں فیصلے دینے والی روش کا خاتمہ ہو جاتا لیکن ایسا ہو نہ سکا کیونکہ مقتدر حلقوں کی اشیرواد سے فیصلہ صادر کرنے والوں کو کون سزا سنا سکتا ہے؟اس وقت سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے غم و غصہ کا شکار ہیں۔
نیب عدالت کے جج ملک ارشد نے انھیں جو سزا سنائی تھی اس پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ملک ارشد کی ویڈیونے لوگوں کو حیران کر دیا ہے ۔حکومت سخت مخمصہ میں ہے لیکن کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی۔کوشش تو بہت ہو رہی ہے کہ اسے بھی اپوزیشن کو ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جائے لیکن جب منصف خود اس بات کا اقرار کرے کہ اس نے انتہائی سخت دبائو کے تحت سزا سنائی تھی توکوئی کیا کرسکتا ہے؟منصف کیلئے جب ضمیر کا جوجھ اٹھا ناممکن ہو گیا تو اسے اعتراف کرنا پڑا کہ سزا دبائو کا نتیجہ ہے۔اسے ڈرائونے خوا ب ستانے لگے اور اس کی راتوں کی نیند غائب ہونے لگی تو اسے اعتراف کرنا پڑا کہ سزاخا رجی دبائو کا نتیجہ تھی۔یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے انسان کبھی کبھی ایسی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے جہاں ضمیر کے کچوکے اسے چین سے جینے نہیں دیتے۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی سچ کے اظہار پر مجبور ہو جاتا ہے۔اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انصاف کے نام پر اس نے انصاف کا خون کیا ہے۔دنیا جسے انصاف کا نام دے رہی ہے وہ انصاف نہیں بلکہ انتقام ہے ۔میرا مطمعِ نظر میاں محمد نواز شریف کی بے گناہی کا ڈھنڈورا پیٹنا نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کو یقینی بنانے کا عزم ہے۔کل کو ایسا وقت دوسروں پر بھی آسکتا ہے لہذا انصاف کا علم ہمیشہ سر بلند رہنا چائیے۔
میاں محمد نواز شریف بھی تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کے من پسند گھوڑے تھے لیکن آج اسٹیبلشمنٹ ان کے وجود سے نالاں ہے ۔وہ انھیں سبق سکھاناچاہتی ہے تا کہ آئیندہ کوئی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لب کشائی کی جرات نہ کرسکے ۔یہ ابھی یا کبھی نہیں والی صورتِ حال ہے۔پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ منتخب قیادت کو فیصلہ سازی کا اختیار دے گا یا پسِ چلمن ہی سارے فیصلے صادر ہوا کریں گے؟ میاں محمد نواز شریف اس وقت جس کیفیت سے دوچار ہیں بہت سے لوگوں کے ادراک سے ماوراء ہے ۔٢٠٠٠ میں دس سالہ معاہدہ کر کے سعودی عرب جلا وطن ہنے و الے شخص سے اس بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ آزمائش کی کٹھالیوں میں عزم و ہمت کا مظاہرہ کر کے دنیا کو حیران کر دیگا۔اس نے جس دن اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری کا انتخاب کیا تھا اس دن ایک سچے جمہوری شخص کا جنم ہوا تھا۔ کیا یہ بات باعثِ شرم نہیں ہے کہ اسی شخص کو ایک متنازعہ فیصلہ کی روشنی میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رکھاہوا ہے ۔ فیصلہ دبائو کا نتیجہ ہے تو اسے جیل میں رکھنے کا کسی کے پاس کوئی جواز نہیں ۔اگر اس نے کرپشن کی ہے تو گواہوں، ثبوتوں اور شواہد کی روشنی میں اسے ضرور سزا دو لیکن ذاتی انتقام میں میزانِ عدل کو مت جھکائو ۔یاد رکھو دبائو کے تحت سنائی گئی سز ا انصاف کا قتل ہے اور باضمیر لوگ ایسے انصاف کو قتل ہی کہتے ہیں ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندران اقبال