اسلام نے جو نظام عدل ترتیب دیا ہے اُس کا مقابلہ دنیا کا کوئی فرد، معاشرہ، ملک، مذہب یا فرقہ نہیں کر سکتا۔ قبیلوں، خاندانوں اور رشتہ داریوں سے بالا تر نظام عدل جس میں عادل کسی مذہب یا فرقہ کا لحاظ کئے بغیر صرف انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔
انسان کا عدل کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے چنانچہ قرآن کریم میں (سورة النسائ) میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا”اے ایمان والو انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔
اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو اللہ ان کا خیر خواہ ہے”ایک جگہ ارشاد ہوا ‘یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے'(الحجرات:٩) ایک جگہ اور ارشاد ہوا ”عدل کرو، یہ تقویٰ کے قریب ترہے”(المائدہ:٨) پھر ارشاد ہوا”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پرقائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گرو کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔
عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے(المائدہ :٨)اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر کئی اور جگہ بھی عدل کی اہمیت و افادیت سمجھانے کے لئے احکامات صادر فرمائے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے ”عادل حکمران زمین پر خدا کا سایہ ہے”یہ بات طے ہے کہ عدل قائم کرنا حاکم وقت کا فرض ہے اور قیام نظام عدل کے بغیر نظام حکومت تو کیا نظام زندگی چلنا ناممکن ہے۔
نظام عدل انسانی زندگی کو حیوانیت کے دائرے سے نکال کر انسانیت کے اعلیٰ مقام پرفائز کرتا ہے ورنہ حیوان بھی طاقتور ہونے کی صورت میں شاندار زندگی بسر کرتے ہیں۔ عمر کے آخری دنوں میں جب جسم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تب طاقت بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔
پھر جنگل کے قانون کے مطابق شاندار جوانی بسر کرنے والے حیوان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو کمزوروں کے ساتھ جوانی میں پیش آتا ہے۔ انسانی معاشرے میں عدل ہی طاقتور کے ساتھ ساتھ کمزور کو بھی عمر کے ہر حصے میں جینے کا مکمل حق دیتا ہے۔
اگر عدل کو انسانی معاشرہ سے نکال دیا جائے تو پھر انسانی بستیاں جنگل سے بھی زیادہ خطرناک اور خونخوار ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ حیوانیت میں طاقتور کے کمزور (بوڑھے) ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے جبکہ انسان اپنے حریف کو کمزور کرنے کے طریقے جانتا ہے۔
انسان کی ترقی اور کامیاب زندگی کا دار و مدار صرف اور صرف اعلیٰ درجہ نظام عدل کے قیام کے ساتھ منسلک ہے۔ جہاں عدل نایاب ہو جائے وہاں حقوق مانگنے والوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں جبکہ فرائض ادا کرنے والا کہیں نہیں ملتا۔آج ترقی یافتہ ممالک میں انسانی حقوق کی حمائت میں کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو نظام عدل میں خامیوں کا ثبوت ہے۔ انسانی معاشرہ اقتصادی ترقی کے باوجود اُونچ نیچ میٹا دینے والے نظام عدل کے بغیر ترقی یافتہ کہلانے کا حقدار نہیں بن سکتا۔
عدل کا معیار یہ ہونا چاہئے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے فرائض اس طرح ادا کرے کہ کسی کو اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تحریک چلانا تو کیا آواز بھی اُٹھانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
Allah
اسلام ایسے نظام عدل کا حامی ہے جس میں عادل حقائق اور شواہد کی روشنی میں مظلوم کے حقوق کا تحفظ کرے بغیر کسی سفارش و رشوت اور خوف کے۔ اس کائنات کا سب سے بڑا عادل و حاکم خود خالق کائنات ہے۔ جو ساری کائنات کا نظام پورے عدل کے ساتھ چلارہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بعد مسلمان حاکم اس زمین پر عدل و انصاف کا ذمہ دار ہے۔ کیونکہ اس کائنات پر اُول حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اس لئے انسان صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کے ذریعے ہی مخلوق کو عدل فراہم کر سکتا ہے۔
آئین پاکستان جو کسی مولوی نے نہیں بلکہ سیاسی نمائندوں نے ترتیب دیا ہے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو پوری طرح تسلیم کرتا اور ملک میں اسلام کے مکمل نفاذ کا وعدہ کرتا ہے۔ پاکستان کے کسی ادارے یا سیاسی جماعت کو بظاہر نفاذ اسلام پر کوئی اعتراض نہیں لیکن نجانے کیوں جب اسلام کو نافذ کرنے کا ذکر آتا ہے تو لوگ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ کون سااسلام نافذ کیا جائے، سنی، شیعہ، وھابی، دیوبندی، یا کوئی اور جبکہ اسلام تو ایک ہی ہے۔ سیاست دان فوری طور پر سوچ لیتے ہیں کہ اگر اسلام نافذ ہو گیا تو حکومت مولویوں کے ہاتھ چلی جائے گی۔ سچ بھی ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حکومت کرنی ہے تو پھر دین سیکھنا پڑے گا۔
میرا آج کے تمام سیاست دانوں کو مشورہ ہے کہ جہاں اپنے بچوں کو دنیا کی اعلیٰ تعلیم دلواتے ہو وہیں انہیں اسلام کے متعلق بھی صحت مند آگاہی دے دو تا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حکمرانی کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت کی زندگی میں بھی کامیابیاں سمیٹنے کے قابل ہو جائیں۔ جہاں دنیا، جہان کی بے ایمانی سیکھتے ہو وہاں ایمانداری کے ساتھ جینا سیکھ لو تو تم بھی حکومت کرسکتے ہو اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد۔ اے دینا کے امیر حکمرانو کیوں ڈرتے ہو نفاذ اسلام سے ؟ اسلام غریب کو عدل فراہم کرتا ہے اس کایہ مطلب نہ لو کے امیروں پر ظلم کرتا ہے۔ اسلام تومال و دولت، رنگ و نسل، ملت، مذہب و عقیدہ کا لحاظ کیے بغیر غریب اور امیر دونوں کو عدل کے ساتھ اپنے وسائل میں آزاد اور خودمختار زندگی بسر کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔اسلام کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ عدل کا درس دیتا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم بھی حصول انصاف کیلئے مسلم عدالتوں سے رجوع کیا کرتے تھے جہاں اُن کو مکمل انصاف ملا کرتا تھا۔
عدل کے بغیر نہ صرف ریاست بلکہ پوری کائنات کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ دور حاضر کو دیکھ کر ذہن میں جب یہ سوال آتا ہے کہ آج تو ایسا عدل کہیں نظر نہیں آتا پھر کیسے نظام کائنات چل رہا ہے؟ جواب یہ ہے کہ جس کی کائنات ہے وہ مکمل عدل فرما رہا ہے بس کچھ لوگوں کو کچھ دیر کی مہلت ملی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ناسمجھ، سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی بے ایمانی اور ناانصافی کی بدولت کائنات کی تمام دولت اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں جو اللہ معاف فرمائے اُن کی نظر میں شائداُن کو قیامت کے عذاب سے محفوظ کر سکتی ہے جبکہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا وہ عادل ضرور انصاف کرے گا جس کاوعدہ ہے کہ وہ پورا پورا انصاف کر دے گا۔ ملک میں موجود کرپشن، بدامنی، ناانصافی، مہنگائی اور چور بازاری سمیت تمام مسائل کا حل بھی اسلامی نظام عدل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ چنانچہ اسلامی نظام عدل کو رائج کرنا، ناگزیر ہو چکا۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر:امتیاز علی شاکر:کاہنہ لاہور imtiazali470@gmail.com