ایک طرف ہمار نظام انصاف کھڑا ہے تو دوسری طرف قانون پر عملدارآمد کروانے والے ادارے موجود ہیں مگر درمیان میں عوام کا بری طرح استحصال ہو رہا ہے کوئی دن بھی خیر خیریت والا نہیں ہوتا ہر روز ظلم اور جبر کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں ہم میں قوت برداشت ہے اور نہ ہی ہمارے اداروں میں انصاف کی سکت جس کا جہاں زور چلتا ہے وہ ظلم کی انتہا کردیتا ہے معافی نام کا لفظ ہم نے اپنی لغت سے نکال باہر پھینکا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور بڑے بڑے ظالم قانون کو واقعی اندھا سمجھ کر اپنی مرضی کی چھڑی پکڑوا کر اپنے ہی راستوں پر چلا رہے ہیں بربریت کی ایسی ایسی خبریں ہوتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر روح بھی لرز جاتی ہے مگر نہ جانے وہ کونسے وحشی درندے ہیں جو ٹانگیں کاٹتے ہوئے،بازو توڑتے ہوئے،ہونٹ اور ناک کاٹ کر الگ کرتے ہوئے اور خوبصورت چہروں پر تیزاب ڈالتے ہوئے ویڈیو بناتے ہیں اور پھر انہیں وائرل بھی کردیتے ہیں اور تو اور بے سہار،معصوم اور یتیم بچیوں کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کرنے والے بھیڑیے بھی اسی ہمارے معاشرے میں دندناتے پھر رہے ہیں اور قانون ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوا ہے۔
ظلم و زیادتی کے یہ واقعات کوئی آج سے رونما نہیں ہورہے بلکہ جب سے ہم نے سفارش، رشوت اور بدمعاشی کے کلچر کو پروان چڑھایا جب سے ہمارے حکمرانوں نے ہمیں لوٹ مار کرکے ننگا کردیا ہمیں سطح غربت سے نیچے پھینک دیا اپنی پسند و ناپسند کی بھرتیاں کی اور اداروں کے ملازمین کو ذاتی ملازم بنا لیا تب سے آج تک ہر طرف چیخ وپکار ہے کہیں کوئی لٹ رہا ہے تو کہیں کوئی لوٹ رہا ہے کہیں ماں باپ کے سامنے بیٹیوں کو نوچا جارہا ہے تو کہیں بچوں کے سامنے پولیس والدین کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے کہیں منشیات فروش سرے عام اربوں روپے کی منشیات فروخت کررہے ہیں تو کہیں قانون کے رکھوالے ہی انکی پشت پناہی کررہے ہیں جیسے جیسے ترقی کے دور میں ہم داخل ہوتے جارہے ہیں ویسے ہی ہم تشدد اور وحشت کے نئے نئے طریقے ایجاد کرکے ویڈیو بنا بنا کر اپ لوڈ کررہے ہیں۔
تندور سے روٹی چرانے والے کو مار مار کر اور پھر منہ کالا کرکے پورے محلے کا چکر لگایا جاتا ہے اور جنہوں نے اس غریب کو روٹی چرانے پر مجبور کیا پورا محلہ اس کے پاس سلام کرنے جاتا ہے پنجاب حکومت کی سرپرستی میں ایک ادارہ کاشانہ بھی چل رہا ہے جہاں غریب،یتیم اور بے سہارا بچیاں رہائش رکھتی ہیں مگر انسانی جسموں سے کھیلنے والے وحشیوں نے انہیں بھی معافی نہیں دی ان لڑکیوں کو افسران پہلے خود جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے دل بھر جانے کے بعد انہیں دوسروں کو پیش کردیا جاتا ایک لڑکی کائنات نے جرات،ہمت اور بہادری دکھائی وہ سب کچھ بتا دیا جو ان بے سہارا اور یتیم بچیوں کے ساتھ ہوتا تھا جسکے بعد اسے معافی نہیں دی گئی۔
بھوکا اور پیاسا رکھ کر اس معصوم پری کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اسکی پوسٹ مارٹم رپوٹ بھی آگئی اسکی فرانزک رپورٹ بھی آگئی مگر ابھی تک قانون حرکت میں نہیں آیاکیونکہ وہ اندھا ہے اور سے کوئی رپورٹ نظر نہیں آرہی افشاں لطیف کی دہائی بھی سنائی نہیں دے رہی کیونکہ وہ اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ بہرہ بھی ہے اب باقی کی کہانی افشاں لطیف کی زبانی سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اس ادارے میں زیر کفالت یتیم و لاچار بچیوں کو چھت، روٹی اور کپڑے کے نام پر جنسی استحصال کا شکار بنایاجارہا ہے اور ان معصوم بچیوں کوگندی فلمیں دکھاانکا ذہن خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس وقت صرف ایک میں ہی ”کاشانہ ” کی معصوم و یتیم بچیوں کی ڈھال بنی ہوں ہوئی ہوں وزیراعظم پورٹل پر دی جانے والی درخواست بھی انہیں کے سپرد کردی گئی جو ان معصوم بچیوں کے استحصال میں ملوث ہیں۔
جبکہ اسی سال 5 فروری کو اقراء کائنات اس دنیا فانی کو چھوڑ کر اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئی اور مجھے ڈر ہے کہ کاشانہ میں رہائش پذیر ان بچیوں کو بھی کائنات کی مانند موت کے گھاٹ اتار دیا جائیگا جو ان واقعات کی خود گواہ ہیں کہ کسطرح حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ادارے میں زیر کفالت ان یتیم و لاچار بچیوں کو چھت، روٹی اور کپڑے کے نام پر جنسی استحصال کا شکار بنایا جاتا تھا اور میں نے “کاشانہ ویلفیئر ہوم لاہور”کی یتیم و نادار بچیوں کو ذہنی و جسمانی ہراسگی سے بچانے کے لئے وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم کے خلاف درخواست پی ایم پورٹل پر ڈالی تو یہ درخواست انہی افسران کو بھجوا دی گئی کہ اس پر کاروائی کی جائے جن سے ہی ان بچیوں کو خطرہ ہے میری درخواست ان بچیوں کی عزتوں پر ہاتھ ڈالنے والے افسرا ن کے خلاف تھی اور اس درخواست کو بھیجا بھی ان ہی افسران کو گیا جن بھیڑیوں سے میں ان معصوم بچیوں کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔
افشاں لطیف کا مزید کہنا تھا کہ 29نومبر 2019کو کاشانہ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد پی ایم کمپلینٹ سیل کے چیئرمین اعجاز صاحب نے خود کو ایک حساس ادارے کا افسر ظاہر کر کے مجھ سے رابطہ کیا اور تمام صورتحال کی بابت پوچھا،اور اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نا رہی جب خاتون اول بشریٰ بی بی کی پرنسپل سیکر ٹری نے ان کی ہدایات پر مجھ سے رابطہ کیا اور پی ایم پورٹل پر میری جمع کروائی گئی درخواست کے بابت معلومات حاصل کیں اور پھر مجھے کاشانہ کی معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کی پیروی سے باز رکھنے کے لیے مجھے اور میرے شوہر کو ایک وزیر کی منشاء پر دن دیہاڑے ادارے کے مرکزی دروازے کو توڑ کر،بچیوں کو محبوس کر کے ایک دہشت گرد کی مانند گرفتار کیا گیا،کیونکہ میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کروانے کا باقاعدی حکم دیا گیا تاکہ میری تذلیل کر کے انکو خوشی پہنچائی جا سکے۔
سوشل میڈیا کی بدولت پاکستان سمیت ساری دنیانے موجودہ حکومت کے انصاف مہیا کرنے کے دعوے اور مجبور بچیوں کی آہ پکار بھی سن لی یتیم بچیوں کے اس ادارے کو پولیس گردی کا نشانہ بنوایا گیا اور پولیس نے جہاں مرکزی دروازے کو توڑ کر ادارے پر ایسے حملہ کیا جیسے کہ وہ دشمن ملک پر حملہ کر رہے ہیں۔اور یہ سب اس وقت کیا گیا جب پی ایم پورٹل میں مجرموں کو ہی منصف بنا کر میری درخواست انکو بھجوا دی گئی ہم دونوں میاں بیوی کو گرفتار کر نے کے بعد ایف آئی آر تک نہ کاٹی گئی بلکہ،ہمیں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہم ایک خالی کاغذ پر دستخط کر دیں ہمارے خلاف دہشتگردی،بچیوں کو محبوس کرنے اور کار سرکار میں مداخلت کے الزامات پر ایف آئی کارکاٹ دی جاتی مگر یہ میڈیا کی مہربانی ہے کہ وہ اس معاملہ میں آگے بڑھا وگرنہ میں آج بھی جیل میں سڑ رہی ہوتی اور معصوم بچیاں ان درندوں کی ہوس کا شکار ہو چکی ہوتیں۔افشاں لطیف کی ان بچیوں کے حوالہ سے بہت لمبی کہانی ہے وہ سب جانتی ہیں کہ پچھلی حکومتوں کے کون کون سے اہم کردار اس گھناؤنے کھیل میں شامل رہے اور اب موجودہ حکومت کے کون کون سے مہرے اس کھیل میں استعمال ہورہے ہیں خدا خیر کرے کسی طرف سے بھی خیر کی کوئی خبر نہیں آ رہی۔