قرآن کریم میں ا? تعالیٰ فرماتا ہے: ”(اے نبی ۖ فرمادیجیے کہ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ عدل کروں۔” (شوریٰ:15)۔ عدل و انصاف کیا ہے، اس کی بڑی اعلیٰ تشریح و مفہوم ہمیں حضرت محمد ۖ کی اس حدیث سے بخوبی سمجھ آتا ہے کہ ”تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کمزوروں کو قانون کے مطابق سزا دیتے اور طاقت وروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدۖ کی جان ہے، اگر محمدۖ کی اپنی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔” (بخاری)۔فرمان الٰہی اور حدیث نبوی ۖ بیان کرنے کا مقصد ارباب اختیار کو یاد کرانے کی کوشش ہے کہ عدل و انصاف ایسا نظام ہے جو تمام طبقات و افراد پر یکساں لاگو کرنا، ریاست کی اولین ذمے داری ہے اور پھر یہ عمل تو امت مسلمہ کے لیے حکم الٰہی اور سنت رسول ۖ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بڑے صائب انداز و جرا?ت مندی کے ساتھ عدلیہ کی کمزوریوں کی نشان دہی و اعتراف کرتے ہوئے اس میں بھی احتساب کے لیے اصلاحات کا اعلان کیا۔ پاکستان میں اس وقت کرپشن، منی لانڈرنگ و احتساب کے حوالے سے خصوصی مہم جاری ہے۔ نیب پوری طرح فعال اور بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں کچھ ایسے افسوس ناک مناظر سامنے آئے ہیں جس پر چیف جسٹس آف پاکستان سمیت چیئرمین نیب نے بھی نوٹس لیا۔
قوم کے اربوں کھربوں روپے لوٹنے والے، کرپٹ اور قانون شکنوں کو اس طرح پیش کیا جاتا رہا ہے کہ ان کے آگے پیچھے پروٹوکول کی لائن لگی ہوتی ہیں۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگے بغیر جس غرور و رعونت سے، عدالت میں پیش ہوتے ہیں، جیسے پورا پاکستان اُن کی جاگیر ہو۔ اثررسوخ کے حامل افراد کے عدالت میں اس طرح پیش ہونے کے عجیب مناظر کو دنیا بھر میں حیرت سے دیکھا جاتا ہے، دوسری جانب یہ نظارہ بھی ہوتا ہے کہ عدالتوں میں اساتذہ کو بڑے تضحیک اور توہین آمیز طریقے سے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگاکر پیش کیا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار ہیں۔ ڈاکٹر کامران مجاہد کے ساتھ دیگر ملزمان میں ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر، ڈاکٹر لیاقت علی، ڈاکٹر کامران، ڈاکٹر راس مسعود اور امین اطہر شامل ہیں۔ پانچوں ملزمان بطور رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی تعینات رہے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بھرتیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے آپس کی ملی بھگت سے 2013 سے 2016 کے درمیان 550 غیر قانونی بھرتیاں کیں اور 3 برسوں میں کی جانے والی تمام بھرتیاں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی تھیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ملزمان کی جانب سے بھرتیاں میرٹ اور سلیکشن کے ضابطہ? کار کے خلاف کی گئیں اور ملزمان نے تمام بھرتیاں سالانہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر کیں، جنہیں بعد ازاں رینیو کیا جاتا رہا۔ ابھی ان پر الزام ثابت نہیں ہوا، اس لیے تحقیقات و دیگر معاملات کے زیر تفتیش رہنے کی وجہ سے کسی قسم کا اظہار خیال کرنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن یہاں جو سب سے افسوس ناک صورت حال سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ عدالتوں میں سیاسی اثررسوخ کے حامل افراد کو کھربوں روپوں کی کرپشن اور عدالتوں میں وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جب تک کسی بھی فرد پر الزام ہے وہ قانون کی نظر میں صرف ”ملزم” ہے۔ واضح رہے کہ جب الزام ثابت ہوجاتا ہے تو بھی مجرم ہونے کے باوجود مروجہ قانون کے مطابق بعض سہولتوں کا مستحق ہوتا ہے۔
راقم سمیت عوام نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سیکڑوں قتل کا ملزم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بغیر ہتھکڑی لگائے اس طرح پیش ہوتا ہے جیسے اس کا جرم سنگین نوعیت کا نہ ہو۔ کروڑوں روپے منی لانڈرنگ مقدمے میں نامزد ملزمان بھی اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ انہی عدالتو ں میں ڈاکٹر مجاہد کامران جیسے اساتذہ بھی پیش ہوتے ہیں، جنہیں ہتھکڑیاں لگاکر پیش کیا جاتا ہے، یہاں طبقاتی تفریق بدنما داغ کی صورت نمودار ہوتی ہے۔ جب ہم ماتحت عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جیسے ملزمان انسان نہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ ایک زنجیر میں بندھے سات? آٹھ ملزمان کو گھسیٹتے ہوئے ماتحت عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیوں میں انہیں اس طرح ٹھونس ٹھونس کر بھرا جاتا ہے کہ سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ جیلوں کی بیرکوں میں ایسے ماحول میں رکھا جاتا ہے، جہاں جاکر کوئی بے گناہ بھی ردعمل میں جرائم کی جانب راغب ہوجاتا ہے۔
لیکن یہ کیسا قانون ہے جس میں اشرافیہ، متوسط اور کمزور طبقوں کے لیے جداگانہ معیار قائم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام ملزمان کے ساتھ یکساں سلوک ہو، سب کو ہتھکڑیوں میں باندھ کر عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اس میں تفریق نہ کی جائے کہ جب تک جرم کسی پر ثابت نہیں ہوتا، کوئی شخص بھی خصوصی سلوک کا حق دار نہیں ہے۔ اگر قانون میں انصاف ہے تو ملزمان میں تفریق کرنے کا حق کس نے، کس کو، کس اختیار کے تحت دیا ہے۔ حضرت محمد ۖ کے سامنے جب بارسوخ شخص کا مقدمہ بھی پیش کیا جاتا تو وہ قانون کے مطابق اس پر فیصلہ کرتے، کیونکہ انہوںۖ نے خود پر لاگو کرلیا تھا کہ اگر اُن (ۖ) کی بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو بھی وہ قانون (قرآن کریم) کے مطابق فیصلہ کرتے۔
اگر یہ معیار سب کے لیے یکساں نافذ کردیا جائے کہ قانون و انصاف کی فراہمی میں کوئی طبقاتی تفریق نہیں ہوگی تو یقیناً آئندہ ارباب اختیار کو اساتذہ کے ساتھ ہونے والے سلوک پر معافی مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملزم کوکسی بھی عدالت میںکسی بھی الزام میں پیش کیا جائے تو قانون کے تقاضے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی یکساں لاگو ہوں، قانون سازی کرنے والوں پر بھی اور قانون شکنی کرنے والوں پر بھی۔ اگر قوم کو تباہی سے بچانا ہے تو ہمیں یہ نہیں دیکھنا کہ اس ملزم کا تعلق کس طبقے سے ہے۔ وہ ملزم ہے تو اس کے ساتھ سلوک بھی بلاامتیاز ہو۔ اگر ملزم کو گرفتار کرنے والے، اسے گناہ گار ثابت نہ کرسکیں تو ایسے قانون نافذ کرنے والوں یا غلط فیصلہ سنانے والوں کو ڈبل سزا دینے کی بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔ کوئی بھی ملزم، سزا ملنے تک قانون کی نظر میں صرف ملزم ہوتا ہے۔ اس لیے ملزم کوئی بھی ہو، انصاف کے تقاضے پورے کرنا ریاست کا فرض ہے۔ ریاستی ادارے انصاف کی فراہمی کے لیے حکم الٰہی اور سنت رسول ۖ کی پیروی کو معیار بنائیں، کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔