صرف انصاف کی جیت چاہیے

Justice

Justice

تحریر: چوہدری غلام غوث
حضرت عمر فاروق اپنے دور حکومت میں ایک قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ـآپ کو دیکھ کر قاضی احترام میں کھڑا ہو گیا ـقاضی کے اس عمل سے آپ کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا اور قاضی سے فرمایا کہ آپ نے میرے احترام میں کھڑے ہو کر انصاف کو قتل کر دیا ہے اور ان کے دور کا ہی واقعہ ہے کہ دو مقتدر شخصیات کھانا تناول فرما رہی تھیں اور کھانے کے بعد از راہ تفنن دونوں حضرات گپ شپ لگانے میں مصروف ہو گئے اتنے میں وہاں ایک شخص حاضر ہوا دونوں حضرات میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہ میرا ملزم ہے میں انصاف کا طلبگار ایک فریادی ہوں ان دونوں شخصیات میں سے نسبتاً دراز قد شخصیت کے چہرے پر جلالیت کے اثرات نمودار ہوئے اور حکماً کہا اے ابو حسن کھڑے ہو جاؤ ابو حسن کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ خاموشی سے کھڑے ہو گئے فریادی کو مقدمہ کی تفصیل سنانے کا حکم صادر ہوا اس نے اپنا مقدمہ سنایا ملزم کو بھی اپنے حق میں صفائی پیش کرنے کی اجازت مل گئی۔

دعویٰ اور جواب دعویٰ کا سلسلہ چلا چند ہی لمحوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا دعویدار جھوٹا ثابت ہو گیاـدراز قد شخص نے فریادی کو جانے اور ابوحسن کو بیٹھنے کا حکم صادر کر دیا دراز قد شخص نے ابوحسن سے پوچھا برادرم جب میں نے آپ کو کھڑا ہونے کا حکم دیا تو آپ کا چہرہ سرخ کیوں ہوا ابوحسن نے تبسم فرمایا اور نرم لہجے میں بولے امیرالمومنین عربوں میں کُنیت ادب و احترام دئیے جانے کے لئے بولی جاتی ہے جب میرے خلاف مقدمہ پیش ہوا آپکو مجھے ملزم گرداننا چاہیے تھا آپ مجھے صرف علی کہہ کر پکارتے آپ نے مجھے ابوحسن کہا تو مجھے گمان گزرا کہ آپ کا انصاف کہیں ڈگمگانہ جائے اور فریادی اس کو جانبداری سے تعبیر کر کے یہ نہ سمجھے کہ آپ نے میرے ساتھ رعایت برتی ہے ـ

Hazrat Umar Farooq RA

Hazrat Umar Farooq RA

حضرت عمر فاروق اٹھے اور ابوحسن علی المرتضی کو گلے لگا لیا اس واقعہ پر ذرا غور فرمائیں کہ انصاف کا نظام عدل کتناسادہ کتنا شفاف اور کتنا فوری تھا اس میں کوئی بھی فریادی کسی بھی وقت کسی کے بھی خلاف عدالت میں پیش ہو سکتا تھا اس کا ملزم خواہ علی ابن ابی طالب جیسا جلیل القدر صحابی اور داماد رسول ۖ ہی کیوں نہ ہو اور وہ اس وقت امیرالمومنین کے دسترخوان پر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو ـ

یہ سرور کائنات کی مثالی تربیت اور اسلام کے سنہری اصولوں کا اثر تھا کہ ملزم اس وقت کٹہرے میں کھڑا ہو ا، کیس سماعت ہوا ثبوت طلب ہوئے اور فی الفور فیصلہ صادر ہوا اور ملزم کا اعتراض بھی کیا خوب اور لاجواب تھا کہ حضور جب میں ملزم تھا تو آپ نے مجھے اتنے احترام سے پکارا ہی کیوں ؟ آپ کا یہ اقدام منصف کے تقاضوں کے منافی تھا دنیا کے ہر مذہب میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہے مگر جو معیار اور شفافیت اسلام کے نظام عدل میں دکھائی دیتی ہے وہ دوسرے مذاہب میں دور دور تک دیکھنے سے نہیں ملتی تین تین ،چارچار براعظموں پر حکومت کرنے والے اسلامی حکمرانوں کو جب قاضی طلب کرتے تو وہ کٹہرے میں موجود پائے جاتے اور ان کے خلاف فیصلے بھی ہوتے انہیں چوں کرنے کی جرات نہ ہوتی ـ پھر آہستہ آہستہ نظام عدل کے ساتھ کیا ہوا کہ اسلام کے اس مثالی نظام عدل کے سنہری اصول اہل مغرب کے پاس چلے گئے اور ہمارے پاس صرف عدالتیں ، جج، ریڈرز ، ہرکارے ، اردلی ، اہلمد، وکیل اور قانون کی کتابیں رہ گئیں اور مطلق العنان حکمرانوں نے قانون اور انصاف کو گھر کی لونڈی بنا لیا اور یہ وقت آن پہنچا کہ اگر امیر کوئی جرم کرے تو اس کے لئے الگ قانون اور غریب کے لئے قانون کا شکنجہ علیحدہ تیار ہونے لگا اس امتیازی سلوک سے عوام کا نظام عدل سے اعتماد اٹھ گیا اور اسی وجہ سے بے یقینی اور انار کی کی فضاقائم ہوئی ـ

Panama Papers

Panama Papers

آج اسی وقت پھر میرے ملک کے حکمرانوں پر بد عنوانی اور کرپشن کا سنگین الزام لگا ہے اور پانامہ لیکس جیسے میگا سیکنڈل کا چرچہ زبان زد عام ہے اور یہ کیس ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے پاس فیصلے کے لئے زیرِ سماعت ہے ـ ہمارے عدل کا معیار حضرت عمر فاروق اور علی المرتضی کے دور کی سطح کا نہ سہی مگر آپ کم از کم اسے یورپ اور امریکہ کے نظام عدل جتنی آزادی تو ضرور دے دیں ان ممالک میں عدالتیں صدر، وزیر اعظم ، چانسلر ، بادشاہ یا وزیر کو طلب کریں تو وہ پل بھر بھی دیر نہیں کرتے اور سر کے بل حاضر ہوتے ہیں اپنے خلاف فیصلے سنتے ہیں سزا کاٹتے ہیں اور خود کو کبھی بھی قانون سے بالا تر نہیں سمجھتے جبکہ ہمارے ہاں انصاف کی عمل داری غریبوں ، مسکینوں اور کمی کمینوں کے لئے رہ گئی ہے اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب تک طاقتور اور صاحب اقتدار افراد انصاف کے کٹہرے میں نہیں آتے اور خود کو قانون اور انصاف سے بالا تر سمجھنے کی غلط روش ترک نہیں کرتے ملک میں عدل اور انصاف قائم نہیں ہو سکتا انصاف فیصلے کی آزادی او ر مکمل غیرجانبداری کا نام ہے جس ملک میں فیصلے بلا خوف و خطر کرنے کی مکمل آزادی نہ ہو وہاں ملک کی بڑی بڑی عمارتوں میں عدالتیں قائم کر کے ان کو دنیا بھر کی سہولتوں سے آراستہ پیراستہ کر کے بھی منصف انصاف نہیں دے سکتے۔

آج ہماری اعلیٰ عدلیہ کے نازک کندھوں پر ملکی تاریخ کی نئی سمت کے تعین کا بوجھ آن پڑا ہے آج ہمیں دیکھنا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی جیسے اکابرین اسلام کے پیرو کار اور ان کے قرین انصاف پر مبنی مثالی فیصلوں کے امین ہمارے منصف آج اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کی موجودہ نازک اور پیچیدہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا اقدامات کرتے ہیں قوم کی نظریں اس وقت ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر مرکوز ہو چکی ہیں اور قوم صرف اور صرف انصاف کا تقاضا کر رہی ہے اور انصاف کی امید لگائے بے چینی سے فیصلے کے انتظار میں ہےـ یہ فیصلہ ملک کے مستقبل پر دیرپااور دوررس نتائج مرتب کرے گا اس فیصلے میں کسی کی جیت یا ہار نہیں بلکہ صرف اور صرف انصاف کی جیت ہو گی ـ۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر: چوہدری غلام غوث