جب تک جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے

Pakistan

Pakistan

کہتے ہیں مکاتیب دراصل مکتوب نگار کی شخصیت کے سر بستہ رازوں کی کلید ہوتے ہیں اور شخصیت کی تمام گتھیاں سلجھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،یہ مکاتیب ہی ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہاں پہلو سامنے لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں،لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز ،جذباتی میلانات،مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز اور اِس جہاں کے کار دراز کے متعلق مکتوب کی سطور کے ذریعے ٔ جو کچھ پیغام ارسال کرتا ہے، وہ نوائے سروش کی صورت میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے۔

مکتوب نگاری ایک ایسافن ہے جو زندگی کی کلیت پر محیط ہے، حیات و کائنات کے تمام پہلو مکاتیب کا موضوع بن سکتے ہیں اور یہی اُن کی مقبولیت کا راز ہے،یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت کے آئینہ دار ہوتے ہیں،مکاتیب کا زندگی کے حقائق سے گہرا تعلق ہے،ڈاکٹر خورشیدالاسلام نے لکھا ہے” زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے،خط اپنی باتیں خود پیدا کر لیتا ہے….زندہ ٔرہنے کیلئے اور خط لکھنے کیلئے زندگی کا احترام ضروری ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں مدوجزر کی کیفیت ہمیشہ بر قرار رہتی ہے،ایک تخلیق کار کا رویہ بھی خوب ہوتا ہے کبھی سوز و ساز رومی تو کبھی پیچ و تاب رازی،زندگی میںایسے متعدد عوامل ہوتے ہیں جو تخلیق کار کااوڑھنا بچھونا بن کر اُسے ہمہ وقت اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں،جبکہ یوں بھی ہوتا ہے کہ تما م حقیقتیں خیال و خواب بن جاتی ہیں، جنہیںہم دیکھ کر جیتے ہیں وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ،صداقتوں پر سراب کا گمان گزرتا ہے اور یہ سب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر پس منظر میں چلا جاتاہے اور ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جاتاہے۔

لیکن اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جانے کے باوجود پس منظر میں چلی جانے والی صداقتیں ایک لمحے کیلئے بھی غائب نہیں ہوتیں، بلکہ ہمیشہ اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں،مکاتیب بھی اِس کی ایک صورت پیش کرتے ہیں،اُن کی اساسی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرچہ اُن کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اِس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو اِن میں اپنی زندگی کے تمام موسم اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں،سچ ہے دل سے نکلی بات کی اثر آفرینی بہر حال مسلمہ ہے۔

Berozgar Pakistan

Berozgar Pakistan

مکتوب نگار کی تاب سخن کے اعجاز سے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے پر خلوص جذبات کا یہ سیل رواں آلام روزگار کو خس وخاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے،پر خلوص جذبات سے مزین مکاتیب کی صدا پوری انسانیت کے مسائل کی ترجمانی پر قادر ہے،مکتوب نگار اپنے شعوری غور وفکر کو اپنے اسلوب کی اساس بناتا ہے،بادی النظر میں مکتوب نگاری کی حدیں جذبہ ٔ انسانیت نوازی سے ملتی ہیں،اِن دونوں میں مقاصد کی ہم آہنگی فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہے۔

مکتوب نگارجہاں اپنی داخلی کیفیات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے ،وہاں زندگی کے تلخ حقا ئق کو بھی منصہ شہود پر لاتا ہے،یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار تخلیق ادب کے حوالے سے زندگی کی حرکت و حرارت کی عکاسی کرنے والے جملہ پہلو سامنے لاتا ہے اور اس طرح زندگی کی جدلیاتی حرکت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا،وہ جانتاہے کہ خزاں بہار کے آنے جانے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی اور قلب و روح پر اترنے والے تمام موسم دل کے کھلنے اور مر جھانے سے عبارت ہیں،کہتے ہیںمکتوب نگاری ذوق سلیم کی مظہر ہے اورایک زیرک اور با شعور مکتوب نگار اپنے اسلوب کے ذریعے ٔ دلوں کو مسخر کر لیتا ہے۔

مکتوبات ڈاکٹر مختارالدین احمدبنام پیرزادہ اقبال احمد فاروقی ”بھی ایسے ہی جذبوں کی امین ہے،جو اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے شاگرد عزیز ملک العلماء مولانا ظفرالدین قادری رضوی کے فرزند ارجمند پروفیسر ڈاکٹر مختار الدین احمد رئیس شعبہ عربی علی گڑھ یونیورسٹی کے محترم اقبال احمد فاروقی کے نام اُن خطوط کا مجموعہ ہے، جس کادورانیہ فروری 1992تا جولائی 2009 پر محیط ہے ،داستان ترتیب میں صاحب مولف محمد عالم مختار حق لکھتے ہیں کہ” ڈاکٹر مختار الدین احمد اور فاروقی صاحب میں مراسلت کا آغاز دسمبر 1964میں ہوا،درمیانی مدت کے مکاتیب جن کا درمیانی عرصہ 28سال پر محیط ہے ،بس اُن (اقبال فاروقی صاحب )کے لااُبالی پن کی نذر ہوئے، فاروقی صاحب کے پاس اپنی نگارشات کا کوئی ریکارڈ نہیں۔”لیکن اِس کے باوجود انہوں نے 227مکتوبات کا گرانقدر تحفہ اہل علم کی خدمت پیش کرکے علمی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

ڈاکٹر مختار الدین احمد کے یہ خطوط مختصر و طویل نویسی اور خاکہ کشی کے ساتھ خوبصورت منظر کشی کے بھی مظہر ہیں، ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی مکاتیب کے جائزے میں لکھتے ہیں کہ”پروفیسر صاحب کے مکتوب الیہم کا دائرہ نہ صرف برصغیر ایشیاء ،افریقہ اور مغربی ممالک کے علمائ،ادبائ،مصنفین،محققین،ناشرین،مدیران رسائل وجرائد اور ماہرین تعلیم تک پھیلا ہوا ہے ،خود اُن کے بقول انہوں نے اب تک پچاس ساٹھ ہزار خطوط تو ضرور لکھے ہونگے …..آپ کے خطوط محض رسمی نہیں ہوتے بلکہ علمی،ادبی،دینی اور تحقیقی اُمور ہی سے متعلق ہوتے، اِس سلسلے میں آپ کی ذات تن نتہا ایک ادارہ ہے،اگر آپ کے تمام مکاتیب کا مجموعہ چھپ جائے تو بلاشبہ اُس کی حیثیت ایک انسائیکلو پیڈیا سے کسی طور کم نہیں ہوگی اور یہ نہ صرف مستقبل کے ریسرچ اسکالروں بلکہ عصر موجودہ کے مصنفین ومحققین اور صاحبان علم وقلم کیلئے ایک قیمتی ذخیرہ اور رہنماء ثابت ہوگا۔

مکتوبات میں شامل ڈاکٹر مختار الدین احمد کے خطوط کی خاص بات یہ ہے کہ اِن میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی کتابوں،اُن کے مکاتیب،ملک العلماء کی تصانیف وغیرہ کی تدوین واشاعت اور جلدازجلد منظر عام پر آجانے کی بے کلی آپ کی اعلیٰ حضرت سے بے پناہ محبت وعقیدت اور فروغ رضویات کیلئے مساعی وتڑپ کا احساس دلاتی ہے،مکتوبات میں شامل خطوط کو سادگی و سلاست ،خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی کا امتیازی وصف قرار دیا جاسکتا ہے۔

Doctor

Doctor

ڈاکٹر صاحب کی مکتوب نگاری میں تکلف ،تصنع ،مافوق الفطرت عناصر ، ریاکاری اور موقع پرستی کی کہیں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ، خطوط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلق براہ ٔراست زندگی سے ہے،جس طرح زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں، اُسی طرح مکاتیب کی اثرآفرینی سے شپرانہ چشم پوشی آسان کام نہیں،ڈاکٹر صاحب اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اِس مسحور کن انداز میں عکاسی کرتے ہیں کہ قاری پر تمام حقائق خود بہ خود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اِن خطوط کے مطالعے سے احساس ،ادراک ،وجدان اور عرفان کو متاع بے بہا نصیب ہوتی ہے،ڈاکٹر صاحب کے یہ مکاتیب نہ صرف شگفتگی، شائستگی ،صداقت ،خلوص،دردمندی اور انسانی ہمدردی اور اُس کے مؤثر ابلاغ کو یقینی بنانے والے عناصر سے مزّین ہیں بلکہ ہماری تاریخ ،تہذیب ،ثقافت، درخشاں اقدار و روایات کے امین اور تاثراتی و بیانیہ نثر کے اعلیٰ نمونہ بھی ہیں،یہ درست ہے۔

عصر حاضر کی ترقی نے اقدار و روایات کے معائر بدل ڈالے اور وقت کی طنابیں کھینچ کر دنیا کو ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کردیا، مگر مکاتیب کی دلکشی اور دل پذیری کا معیار ہر دور میں مسلمہ رہا،محبتوں،چاہتوں،قربتوں اور عہد و پیماں کے امین خطوط کی اہمیت ہر دور میں موجود تھی اور ر ہے گی اور خطوط کی ترسیل کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے۔

تحریر : محمد احمد ترازی
[email protected]