تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب کراچی کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ صوبہ سندھ میں ہے اور سندھ میں اقتدار کی دیوی ہمیشہ سے پیپلزپارٹی پر مہربان رہی ہے۔ زاغوں کے نرغے سے اس بے دست وپا صوبے کو نکالنے میں کوئی سیاسی جماعت کام یاب نہیں ہو سکی۔ ایک دور تھا جب سندھ کی سیاست کے نمایاں ناموں میں عبدالستار افغانی، پروفیسر غفوراحمد، نعمت اللہ خان جیسے دیانت دارلوگ شامل تھے جوکرپشن اورمالی بدعنوانی کوسب سے بڑاجرم گردانتے تھے، تب وسائل کی قلت کے باوجودسندھ بالخصوص شہرقائدخوش حال تھا۔اب جس طرف دیکھیے!ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے اوراداروں میں توگویاکرپشن میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ایک دوڑسی لگی ہوئی ہے،سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ہرجیالے کامطمح نظرمال بنانارہ گیاہے،ہرافسراپنے شریک چیئرمین” بڑے زرداری” کی طرح ”ٹین پرسینٹ ”سے” ہنڈرڈپرسینٹ”بننے کی شبانہ روزتگ ودومیں مصروف ہے، اداروں کی عوام کی جیبیں خالی کرنے کے حوالے سے پھرتیاں بتارہی ہیں کہ:وقت کم مقابلہ سخت والی صورت حال ہے۔
اس دنگل میں کے الیکٹرک سب سے آگے نظرآتی ہے جس نے مال بنانے کے جدیدسے جدیدطریقے ایجادکررکھے ہیں۔بجلی کوجنس نایاب بنانے والے اس ادارے کی طرف سے جاری کردہ بلوں کودیکھ کریوں لگتاہے کہ اب بجلی فراہمی کے نہیں لوڈشیڈنگ کے بل لیے جارہے ہیں۔محکمہ موسمیات کی طرف سے جیسے ہی گرمی کی شدت میں اضافے کی خبرآن ایئرہوتی ہے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوجاتاہے۔قدرتی ہواکے ساتھ ہی پنکھوں اوراے سی کی ہواسے بھی گرمی کے مارے جاں بلب عوام کومحروم کردیاجاتاہے۔پرسکون نیندسے محروم عوام ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں اوپرسے اووربلنگ اورڈبل بلنگ کے چاپک رسیدکرکرکے ان کومزیدبے کل کر دیا گیا ہے۔
یہ مظالم آج کی بات ہے اور نہ ہی کراچی کے باسیوں کے لیے کوئی نئی بات۔اس مشق ستم کا شہر قائد کا ہر باسی شکار ہے ،اس لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی رودادِغم سنانے کی ،سیکڑوں مقدمات عدالتوں میں شہریوں نے دائرکررکھے ہیں،درخواستوں کا تو شمار ہی نہیں۔خود راقم کو،دو ماہ پہلے میٹر ریڈنگ کے مطابق جو بل بن رہا تھا،اس میں2000روپے بڑھاکر بل میں درج کیے گئے ،شکایت کی تو کوئی شنوائی نہ ہو،کہا گیا اپریل کے بل میں یہ رقم منہا کردی جائے گی ،اپریل کا بل آیا تو وہ اس سے بھی تین گنا زائد تھا اور بل دیتے ہوئے یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ایک روز کی مہلت ہے ،ورنہ بجلی منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی کیا جائے گا،ہم تو سرپکڑ کر بیٹھ گئے ،مرتے کیا نہ کرتے ،اس جبر کو بھی بخوشی قبول کرنا پڑا،ورنہ عزت سادات بھی جاتی اور کہیں سے شنوائی پھر بھی نہیں ہونی تھی! سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بھی تقریباًتین ماہ ہوگئے جس میں ہائی کورٹ نے کے الیکٹرک کو حکم دیا تھا کہ کے الیکٹرک کے شیئرز فروخت کرنے سے قبل اضافی بلنگ کی مد میں وصول کیے گئے62 ارب روپے واپس کیے جائیں،فاضل جج صاحبان نے واضح ہدایت کی تھی کہ کے الیکٹرک پہلے اضافی بلز کی رقم واپس کرے پھر شیئر زچینی کمپنی کوفروخت کرنے بات کی جائے،اس حوالے سے واپڈا، نیپرا، این ٹی ڈی سی اور کے الیکٹرک فوکل کو نوٹس بھیجنے کے ساتھ ساتھ چینی کمپنی کو سفارتخانے کے ذریعے نوٹس بھیجنے کا بھی حکم دیا تھا۔اب صورت حال یہ ہے کہ عدالت کے اس حکم کے باوجود کے الیکٹرک کے 77%حصص چینی کمپنی کو فروخت کیے جاچکے ہیں اور شہریوں سے اضافی بلنگ کی رقم 62 ارب سے تجاوز کرکے 200ارب تک پہنچ چکی ہے اور ستم درستم نہ صرف یہ سلسلہ جاری ہے ،بلکہ چور اور چوکیدار یعنی کے الیکٹرک اور نیپرا کے درمیان صلح بھی ہو چکی ہے اور نیپرا نے کے الیکٹرک کو زائد بلنگ کے حوالے سے کلین چٹ دے دی ہے،ہٹ دھرمی کایہ عالم ہے کہ کے الیکٹرک کاترجمان اعتراف جرم تک کے لیے آمادہ نہیں،دوسری طرف شہریوں کی لاکھوں درخواستیں مجازحکام کی فائلوں میں دیمک اورگردوغبارکی نذرہورہی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو بھی بعداز خرابی ٔ بسیاراب اس صورت حال کا ادارک ہونے لگا ہے اور ایک طرف سابق میئر کراچی مصطفی کمال صاحب درجن سے زاید مطالبات لے کر سڑکوں پر نکل چکے ہیں اور مزید رائے عامہ ہموار کررہے ہیں تو دوسری جانب جماعت اسلامی نے عدالت اور نیپراسے مایوس ہونے کے بعد اب دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک اووربلنگ ختم کرے اور فیول ایڈجسٹمنٹ، ڈبل بینک چارجز، میٹر رینٹ اور اضافی ملازمین کے نام پر غیر قانونی طور پر وصول کیے گئے 200 ارب روپے کراچی کے عوام کو واپس کرے۔اس حوالے سے جماعت اسلامی کی جانب سے ون ملین پٹیشن کی دستخطی مہم بھی شروع کی جاچکی ہے۔سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تحریک انصاف بھی حقوق کراچی ریلی نکال کر اس صف میں شامل ہو چکی ہے ،سیاسی جماعتوں کی حالیہ بیداری کو”دیرآیددرست آید”کامصداق تو قرار دیاجاسکتاہے لیکن عوام کوکسی خیرکی اب بھی توقع نہیں۔عوام ”تنگ آمدبجنگ آمد”کی مثال بنے ہوئے ہیں اور کسی مسیحا کی تلاش میں حقوق کراچی کی آواز اٹھانے والے ہر شخص کا ساتھ دے کر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اپنے دیرینہ اور اہم ترین مسائل کے حل کے علاوہ کسی اور بات پر مطمئن ہونے والے نہیں۔
سندھ حکومت کا ایک ہی رونا ہے کہ وفاق سے فنڈ نہیں ملتے ،حالاں کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں اور کے الیکٹرک بھی وفاق کی مقروض ہے ۔کیا سندھ حکومت اس قدر بے بس ہے کہ ملک کو 70%ریونیو فراہم کرنے والے شہر کو بھی فنڈ نہیں دلا سکتی ؟کیاکے الیکٹرک اورحکومت سندھ اس بات کی منتظرہے کہ ان کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام ڈنڈے سوٹے لے کرروڈوں پرنکلیں؟کیاتحریک انصاف کی حقوق کراچی ریلی سے کیایہ بے حسی کاسلسلہ ختم ہوسکے گا؟کیاعمران خان کایہ اقدام شہرقائدکے عوام کوان کے چھینے ہوئے حقوق واپس دلاسکے گا؟کیاپانی اوربجلی کے محکمے اصلاح احوال پرآمادہ ہوں گے؟یایہ ریلی محض پوائنٹ اسکورنگ تک محدودرہے گی؟اس حوالے سے تاحال کچھ نہیں کہاجاسکتالیکن ان بے حس اداروں کومصطفی کمال،جماعت اسلامی اوراب تحریک انصاف کے اجتماعات میں عوام کے امڈتے سمندرکودیکھ کرنوشتہ دیوارپڑھ لیناچاہیے۔یہ سمندراگرطوفان بن کرمزاحمت کی راہ پرچل پڑاتوحکومتی مشینریاں شایداس منہ زورطوفان کارخ نہ موڑسکیں۔۔۔۔اس لیے دانش مندی اسی میں ہے کہ اب کے الیکٹرک سمیت تمام اداروں کوعوام کشی کی راہ پرچلنے کاسلسلہ ترک کرنا ہو گا۔