تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی حرم کعبہ کا دلان کرہ ارض کے چپے چپے سے آئے ہو ئے حاجیوں سے لبا لب بھر چکا تھا ‘انسانوں کا سمندر لہروں کی شکل میں دیوانہ وار کعبہ کا طواف کر رہا تھا ‘میں نشے ‘سرور ‘مستی ندا مت میں ڈوبا ہوا اِن لہروں کا حصہ بنا آہستہ آہستہ طواف کر رہا تھا ‘دنیا بھر سے آئے ہو ئے دیوانے احرام باندھے اللہ کے گھرکا طواف کر رہے تھے ‘جو لوگ اِس سعادت سے گزر چکے ہیں وہ بخو بی جانتے ہیں کہ کعبہ کا طواف کر نا کتنی بڑی سعادت اور لذت کی بات ہے ‘دنیا بھر کے صحراوں ریگستانوں نخلستان پہا ڑوں سبزہ زاروں چٹیل میدانوں گرم ٹھنڈے علا قوں کی بستیوں سے آئے ہو ئے دیوانے ایک ہی انداز اور اسلوب میں چہروں پر عقیدت و احترام کے چراغ جلائے گردش کر رہے تھے۔
کندھے سے کندھا ملا ئے ایک دوسرے کے بہت قریب ایک دوسرے سے بے نیاز ایک ہی جو ش جذبے لگن اور جنون میں مبتلا دنیا جہاں سے بے خبر طواف کعبہ میں مگن ہو تے ہیں اِن میں مرد عورتیں بو ڑھے بچے جوان اور شیر خوار سبھی شامل ہو تے ہیں’ عشق ‘ محبت اوراحترام کے عجب نظا رے نظر آتے ہیں’ سعادت مند بیٹوں نے اپنے والدین کو وہیل چئیر پر بٹھا رکھا ہو تا ہے اور کچھ دیوانوں نے والدین کو اپنے جوان کندھوں پر بٹھا رکھا ہو تا ہے ایسے نوجوانوں کے ہر قدم اٹھا نے پر اُن میں پہلے سے زیا دہ طاقت اور جو ش نظر آتا ہے’ زیا دہ اکثریت احرام میں ملبوس نظر آتی ہے کچھ اپنے قومی لباس اور کچھ رنگ برنگ کے کپڑوںمیں ملبو س دیوانے لہروں کی شکل میں مرکز پر گھوم رہے ہو تے ہیں’ زبانیں شکلیں لباس مختلف لیکن سب خدا ئے بزرگ و برتر کی کبریائی کا سرعام اعلان کر تے نظر آتے ہیں۔
اپنے گنا ہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اپنے پیا روں کے لیے بھی معا فی مانگتے نظر آتے ہیں اِن دیوانوں میں صاحب اقتدار دولت مند بھی شامل ہو تے ہیں اور وہ غریب بھی جنہوں نے برسوں یہاں آنے کے خواب دیکھے ہو تے ہیں اِس دلنشیں روح پر ور خواب کی تعبیر کے لیے پیسہ پیسہ جوڑتے ہیں ‘حج ایک اہم رکن اسلامی اور فرض ہے لیکن اِس کا روحانی پہلو بھی بہت دلکش ہے کر ہ ارض پر بسنے والے ہر مسلمان کے لیے ایمان افروز جذبوں کی شیرینی میں گندھا اور عقیدت و احترام کی خوشبوئوں میں بسا ایسا خواب ہے جو ہوش سنبھالتے ہی ہر مسلمان کی آنکھ میں چمکنے لگتا ہے خا ص طور پر بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے حرم کعبہ اور شہنشاہ مدینہ کے در پر حاضری مذہبی فریضے کی پاس داری کی تکمیل سے بھی زیا دہ وصل یا ر کی لذت اور تکمیل آرزو کا نشہ رکھتی ہے نشے سرور اور ایمان افروز لذت کا یہ خاص پہلو ہما رے معا شرے میں اِس قدر رچ بس گیا ہے کہ مکہ مدینہ ہما ری شریانوں میں خو ن کے ہر قطرے میں خوشبو کی طرح مہکتا اور دوڑتا ہے یہی دیوانگی عشق ہر مسلمان کو دیوانہ وار مکہ مدینہ کی طرف دوڑاتا ہے تو حید اور رسالت ہما رے بنیا دی مذہبی عقائد ہیں جب بھی اِن پر زنگ آجائے رنگ پھیکا پڑ جائے تو زنگ اتارنے اور رنگ کو تیز کر نے والی یہ دو عظیم بستیاں حرم کعبہ اور مسجد نبوی ۖ کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھی ہیں ‘تو حید اور عشق رسول ۖ ہما رے خون میں شامل ہے بلکہ کا ئنات کی ہر تخلیق کا بنیا دی جز ہے خدا کی یہ تخلیق اِس کا اظہار کر نے اِن بستیوں کا رخ ضرور کر تی ہے اِن دونوں بستیوں میں آپ کو دیوانے کبو تر نظر آتے ہیں اور دوران طواف آپ اوپر دیکھتے ہیں تو ننھے منے چڑیوں جیسے ہزاروں پرندے بیت اللہ کے چاروں طرف دیوا نہ وار پرواز کر تے نظر آتے ہیں گہرے سیا ہی ما ئل فاختیا ئی رنگ کے اِن پر ندوں کو ابابیلیں کہتے ہیں پتہ نہیں یہ ابا بیلیں ہیں یا کچھ اور اِن کی نرم و نا زک چونچوں سے مسلسل نغمے پھو ٹتے رہتے ہیں۔
اذان کی روح پرور صدائیں ہوں یا نماز کی ایمان افروز قرات یا لبیک اللھم لبیک کی ایمانی صدائیں یہ ابابیلیں دیوانوں مستانوں کی طرح جھو م جھو م کر مسلسل اڑتی دائرے اور قوسیں بنا تی کچھ نہ کچھ پڑھتی نظر آتی ہیں اِن کی پرواز اور سرور انگیز نغموں سے فضا میں ایک خاص روح پر ور ما حول بن جاتا ہے یہ پرندے بھی نسل در نسل صدیوں سے کعبہ کے شکوہ و جلال کے سحر میں مبتلا اپنے عشق و دیوانگی کے اظہار پر لگے ہو ئے ہیں تہجد اور فجر کے وقت اِن پرندوں کی ایمان افرو ز آوازئیں ما حول پر سحر طا ری کر دیتی ہیں یہ پرندے مستی میں آکر بیت اللہ کے اطراف میں ڈبکیاں لگا تے تیرتے اوپر نیچے کو لہک لہک کر جھوم کر حمد و ثنا ء کے نغمے الا پتے رہتے ہیں اور پھر جب شام چپکے سے اپنی زلفیں کھو لتی ہے اندھیرا آنے لگتا ہے تو حرم کے طا قت ور چراغ جل اُٹھتے ہیں پھر بیت اللہ کا جلال و جمال اپنے نقطہ عروج پر نظر آتا ہے دلان حرم خالق کائنات کے کبریا ئی عطر بیز تزکروں سے مہکنے لگتا ہے میں بھی نشے سرور میں ڈوبا با ربار کعبہ شریف دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا میرے سامنے نوجوان سپیکر کھو ل کر اپنی ماں سے با ت کر تا کبھی کہتا کہ حرم کعبہ کی اذان ماں جی سن لیں کہیں وہ پا کستان میں اپنی ماں یا رشتہ داروں کو ویڈیوکال کر تا جا رہا تھا میرے دائیں جانب ایک پنجابی بو ڑھا پنجا بی زبان میں با واز خدا سے راز و نیاز کر تا جا رہا تھا میں دو چکر لگا چکا تھا اب میں آہستہ آہستہ خا نہ کعبہ کے قریب آتا جا رہا تھا۔
اِس چکر میں اب میں غلا ف کعبہ کو چومنا چاہتا تھا ملتزم کی طرف آرہاتھا پھر یہ سعادت حاصل کر کے میں آگے بڑھ گیا اب کی بار میں حطیم کے اندر آنے کی کو شش کر رہا تھا حج کا بے پنا ہ رش لیکن میں جو ش جذبے سے معمور آخر کا ر ایک ریلے کی صورت میں نفل پڑھنے کے لیے اندر چلا آیا اِس کے بعد اب اگلے چکر میں میرا اراد ہ حجر اسود کا بو سہ لینے کا تھا اب میں پھر آہستہ آہستہ بہت قریب آنے کی کو شش کر نے لگا ‘حج کا مو قع اور حاجیوں کا سمندر حجر اسور کا بو سہ نا ممکن لگ رہا تھا لیکن میں نے پھر بھی کو شش کر نے کا ارادہ کر لیا تھا جب میں حجر اسود کی طرف آیا تو انسان ایک دوسرے کے ساتھ دیوار کی طرح تھے حر کت بہت سست تھی ہر بندہ یہاں اپنی ہی کو شش میں لگا ہوا تھا گر می زوروں پر تھی میرا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا رش اتنا کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا لیکن میں ہمت ہا رنے کو تیا ر نہیں تھا’ انتہا ئی مشکل سے میں اب حجر اسود کے ایک گز فاصلے پر آگیا رش بے پنا ہ نفسا نفسی کا عالم خو د غرضی عروج پر نظر آرہی تھی انسانوں کا ریلا حرکت میں آیا اور میں حجر اسود کے بہت قریب آگیا میں نے ہا تھ بڑھا یا اور اُس دائرے کے اوپر والے کو نے کو مضبو طی سے پکڑ لیا جس میں حجر اسود ہے اب میرے سامنے تین یا چار لو گ تھے میری با ری آنے والی تھی میں بار بار دیکھ رہا تھا کہ پنجا ب سے آئی ہو ئی ایک بو ڑھی ماں کمزور جسم کے با وجود مسلسل اچھل اچھل کر حجر اسود کے قریب آنے کی کو شش کر رہی تھی اُس کے پیچھے اُس کا جوان بیٹا اُس کو سہا را اور آگے کر نے کی کو شش کر رہا تھا بیٹا بار بار کہہ رہا تھا کہ اماں تم زخمی ہو جا ئو گی ہم واپس جا تے ہیں لیکن وہ ماں ہر با ر شیرنی کی طرح بو لتی نہیں میں بو سہ لے کر جا ئوں گی اُس کو دیکھ کر اچانک مجھے اپنی ماں یاد آگئی اور پھر اچانک میرے دل میں ایک خیال چاند کی طرح چمکا اور میں نے فیصلہ کر لیا میں نے اُس کے بیٹے کو آواز دی میرے قریب آئو میں نے اوپر کھڑے سپا ہی کو اشارہ کیا ماں قریب آئی ایک طرف اُس کا بیٹا دوسری طر ف میں اللہ کی مدد آئی اور ماں بالکل حجر اسود کے سامنے ‘بیٹے نے ماں کا سر پکڑا اور حجر اسود کے خانے میں اندر کر دیا ماں نے با ر بار بو سے لئے پھر اپنا دوپٹہ اتار ا اور خو ب پتھر سے مس کیا ماں کے چہرے پر دنیا فتح کر نے کی روشنی تھی پھر ایک طرف بیٹا ایک طرف ماں ہم دونوں اُس کو با ہر لے آئے ‘ ماں خو شی سے رو رہی تھی میں نے ماں کے دوپٹے کے پلو کو پکڑا اور اُس پر اپنی آنکھیں اور ہو نٹ رکھ دئیے میں حجر اسود کا بو سہ تو نہ لے سکا لیکن اُس دوپٹے کو چوم لیا جو حجر اسود کو چوم کر آیا تھا۔