حرم کعبہ کے عاشق

khana Kaba

khana Kaba

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
کرہ ارض پر کروڑوں ایسے سحر انگیز مناظر ہیں جن کو دیکھ کر بڑے سے بڑا منکرِ خدا بھی بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے کہ اِس کا یقینا کوئی عظیم خالق ہے ‘ایسے دل کش مناظر کہ دیکھنے والا پتھر کا مجسمہ بن جائے ‘آنکھ جھپکنا بھو ل جا ئے ‘سانس رک جائے ‘دنیا سے بے خبر ہو جا ئے اور پھر ایسے بھی بے شمار منا ظر ہیں جن کو دیکھنے کے لیے انسان بار بار جانا چا ہتا ہے لیکن چند بار جانے کے بعد ہی انسان کا دل بھر جاتا ہے وہ کسی نئے منظر یا جزیرے کی تلا ش میں نکل پڑتا ہے ‘انسان یکسانت کا شکار ہو کر جلدی بو ر ہو جا تا ہے ‘انسان تنوع پسند ہے ‘اختراع جدت کو پسند کر تا ہے ‘کسی بھی منظر کو چند بار دیکھنے کے بعد نیا منظر چاہتا ہے لیکن کر ہ ارض کا ئنات میں ایک ایسا منظر بھی ہے جیسے لا کھوں بار دیکھنے کے بعد بھی انسان کا دل نہیں بھر تا بلکہ ہر بار دیکھنے کے بعد پیا س اور بڑھ جاتی ہے ‘ہزاروں بار دیکھنے کے بعد بھی ہزاروں بار دیکھنے کی تمنا دل میں مچلتی ہے ‘میرے سامنے حرم کعبہ ایک دل نشیں بہت بڑے قالینی جائے نماز کی طرح بچھا ہوا تھا جس پر لاکھوں سجدے چاند ستا روں کی طرح چمک رہے تھے ‘آسمان کی ساری کہکشائیں حرم کعبہ کے حسن کو دوبالا کر نے کے لیے کعبہ کے صحن میں آکر سجدے کر رہی تھیں اِن کہکشائوں کی وجہ سے حرم کعبہ دلہن کی طرح سجا ہوا تھا چاروں طرف رنگ و نور کے فوارے پھو ٹ رہے تھے چاند ستا رے غلا فِ کعبہ کو دیوانہ وار چوم رہے تھے۔

حرم میں آیا ہوا ہر انسان اِس نشے میں طرف تھا کہ وہ یہاں ہے یہاں سانس لے رہا ہے ‘سجدے کر رہا ہے ‘عبا دت کر رہا ہے وہ فون پر اپنے عزیزوں سے بھی یہ خو شی شئیر کر رہا تھا ‘بو ڑھا آسمان چودہ صدیوں سے دیوانوں کی دیوانگی دیکھ رہا تھا ‘فرشتے محو حیرت تھے انسان جو ہزاروں دنیا وی خدائوں کو سجدے کرنے کے بعد یہاں آکر سجدہ دیتا ہے تو ہزاروں سجدوں سے نجات پا جا تا ہے جب اُس کی جبیں اِس دہلیز پر جھکتی ہے تو بندگی آسمانوں کو چھونے لگتی ہے صدیوں سے یہاں پر دیوانوں کے قافلے آتے ہیں چند دن گزار کر دوبارہ آنے کی تمنا لے کر واپس اپنے گھروں کولو ٹ جاتے ہیں لیکن اِن دیوانوں میں کچھ ایسے بھی یہاں آئے جو پھر دوبارہ واپس نہیں گئے حرم کعبہ نے اُن کے پیروہ میں عشق و مستی ایسی طلا ئی زنجیریں پہنا ئیں کہ وہ پھر وہ دنیا کی ہر زنجیر سے آزاد ہو گئے کعبہ کا منظر اِس قدر بھا یا کہ پھر اُنہوں نے کو ئی دوسرا منظر دیکھنا ہی نہ چاہا پھر اُن کی زندگی کی ڈوری اِس منظر سے بندھ گئی پھر اُنہوں نے واپس کبھی مُڑ کر نہ دیکھا کعبہ کے عاشق یہ دیوانے قسمت والوں کو ملتے ہیں اگر کسی کو مل جائیں اور یہ با ت کر نے پر آما دہ بھی ہو جا ئیں تو طلسم ہو ش رباکے سحر انگیز با ب رقم ہو تے چلے جا تے ہیں میں آج اِسے ہی کسی پراسرار بندے کی تلاش میں تھا میں پچھلے کئی گھنٹوں سے اِدھر اُدھر گھو م رہا تھا نیچے اچھی طرح گھو منے کے بعد اب میں اوپر والے فلور پر آگیا تھا میں جب تھک جاتا آب زم زم کا ٹھنڈا شیریں گلاس لے کر کسی کو نے میں بیٹھ جا تا نظریں خا نہ کعبہ پر گا ڑ دیتا اور قطرہ قطرہ کا لے کو ٹھے کے لا زوال حسن کو اپنے دل و دما غ میں اتا رنے لگتا آپ جب بھی پر شکو ہ جلال سے بھر پو ر بیت اللہ کو دیکھتے ہیں آپ کی روح جھو م جھو م جا تی ہے ‘کا فی دیر خانہ کعبہ کو دیکھنے کے بعد میں ایک بار پھر چل پڑا دنیا جہاں سے آئے ہو ئے حاجیوں کو دیکھ رہا تھا کعبہ کے درو دیوار کو بھی رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جو مستقل یہاں موجود تھے۔

چلتے چلتے میں نے دیکھا ایک بزرگ جس کی عمر ستر سال سے زیا دہ ہو گی اُس نے جنگلے کو پکڑا ہوا ہے فرش پر لیٹا ہوا تھا مضبو طی سے جنگلے کو پکڑا ہوا ہے اور ٹکٹکی باندھے خا نہ کعبہ کو دیکھے جا رہا ہے وہ تقریباً بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا میں بھی اُس کے قریب ہی فرش پر بیٹھ گیا میں تجسس سے اُس کو دیکھ رہا تھا تھو ڑی دیر بعد ہی مجھے احساس ہو اکہ وہ بلکل بھی حر کت نہیں کر رہا اب میرے تجسس میں پریشانی بھی شامل ہو نا شروع ہو گئی مجھے لگا شاید وہ بے ہو ش نہ ہو گیا ہو اب میں سرک کر اُس کے اور بھی قریب ہو گیا جب کچھ وقت اور گزر گیا تو میں نے بابا جی کے کندے پر ہا تھ رکھا لیکن شدید حیرت اُس وقت ہو ئی جب میرے کندھے ہلا نے پر بھی اُس نے میری طرف نہ دیکھا اب مجھے شدید تشویش لا حق ہو ئی کہ بے ہو ش یا گزر نہ گیا ہو ‘اب میں نے زور سے ہلا یا تو بابا جی کے جسم میں تھوڑی زندگی کا احساس ہوا اب میں نے مدد طلب نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا تو بنگا لی ورکر نظر آیا میں اُس کے پاس گیا اُس سے مدد چاہی وہ چل کر میرے ساتھ آیا بابا جی کو دیکھا اُس کو اُٹھا کر بٹھا یا چند با تیں کر نے کی کو شش کی تب بنگا لی ورکر میری طرف متو جہ ہوا اور بو لا میں اِس بابا جی کو جانتا ہو ں یہ سالوں سے حر م شریف میں ہی رہتا ہے ‘دن رات یہاں گزارتا ہے اِس کا کام ہی یہ ہے نان سٹا پ خا نہ کعبہ کو دیکھنا اکثر اِس پر جذب کی حالت طا ری ہو جاتی ہے تو اِس کو اپنی بھی خبر نہیں رہتی اکثر بھو ک پیاس کی وجہ سے بھی اِس کی یہ حالت ہو جاتی ہے ‘اب بھی اِس کی یہ حالت بھو ک سے ہے آپ اِس کو کھا نا وغیرہ کھلا دیں تو یہ ٹھیک ہو جا ئے گا۔

میں نے فو ری طو رپر اپنے بیگ سے ٹھنڈا میٹھا جو س نکا لا اور بابا جی کے ہونٹو ں سے لگا دیا جو با با جی نے پینا شروع کر دیا ساتھ ہی میں نے بسکٹ بھی نکال لیے جو با با جی نے کھانا شروع کر دئیے ‘بابا جی کی مدہم ڈوبتی آنکھوں میں چمک آنا شروع ہو گئی جسم بھی بے جان سے انرجی میں ڈھلنے لگا اب با با جی ممنون نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے بابا جی پشتو زبان بو لتے تھے لیکن ٹو ٹی پھو ٹی اردو بھی بو ل رہے تھے اب میں نے بابا جی کو دبا نا شروع کر دیا پھر میں نے بابا جی سے کہا کہ مجھے بہت بھو ک لگتی ہے آئیں ہم کھانا کھا کر آتے ہیں بابا جی نے انکا ر دیا لیکن جب میں نے بار بار با با جی کو کہا تو وہ میرے ساتھ چلنے پر تیا ر ہو گئے اب ہم باب عبد العزیز سے نکل اُس طرح بڑھے جدھر کھا نے کو مل جاتا تھا ٹھنڈے اور ٹھنڈی عما رت کے فرش پر بٹھا کر میں نے مر غ پلا ئو اور کو لڈ ڈرنکس لئے اور آکر بابا جی کے سامنے بیٹھ گیا گرما گرم کھا نے کی تھال نما ٹرے کو رکھا کولڈڈر نک کے کین کو کھولا اور بابا جی کی طرح ملتجی نظروں سے دیکھا کہ شروع کر یں اب بابا جی اور میں نے ایک ہی تھا ل میں کھا نا شروع کر دیا بابا جی چاول کھا ئے جا رہے تھے اُن کے ہا تھ اور منہ سے جو چاول واپس گر تے اُن کو اپنی طرف اور تا زہ چاول بابا جی طرف کر تا جا رہا تھا بابا جی میری حرکتوں پر شفیق نظروں سے میری طرف دیکھتے وہ با دشاہ میں غلا م میں نو کر کی طرح با دشاہ کو کھانا کھلا رہا تھا اُن کے جھو ٹے چاول میں تبرک لنگر کے طور پرکھا رہاتھا ہر نو الے میں نشہ سرور تھا اِس دوران میں بار بار اُنہیں ڈرنک بھی پیش کرتا اچھی طرح کھا نے کے بعد میں بابا جی کے لیے کڑک چائے لے کر آیا چائے دیکھ کر بابا جی خو ش ہو ئے میں اور بابا گرم تلخ شریں چائے کے گھونٹ اپنے حلقوں سے نیچے اتار رہے تھے یہ میری زندگی کا سب سے لذیز کھا نا تھا میں باباجی کے لیے اگلے وقت کا کھانا اور ڈرنک بھی لا یا تھا جو میں نے اُن کے روکنے کے باوجود اُن کے پرانے تھیلے میں ڈال دیا۔

اب ہم حرم کعبہ کی طرف بڑھے واش روم اور وضو کے بعد ہم پھر باب عبدالعزیز سے حرم کعبہ میں داخل ہو ئے میں غلاموں کی طرح بابا جی کے ساتھ چل رہا تھا میں نے بابا جی کو بتا ئے بغیر کھا نے کے ساتھ سعودی ریا ل بھی رکھ دئیے تھے اگر بابا جی دیکھ لیتے تو کبھی نہ لیتے اب ہم پھر ایسی جگہ پر آگئے تھے جہاں سے خانہ کعبہ پو رے جلال کے ساتھ نظر آرہا تھا میں نے بابا جی سے درخواست کی کہ وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا ئیں انہوں نے ہاتھ اٹھا دئیے اور پو چھا کیا دی تو میں نے کہا میرے ملک پاکستان کے لیے دعا کر یں اور ان تما م غریبوں کے لیے جو سالوں یہاں آنے کا خواب دیکھ رہے ہیں بابا جی کی آنکھوں سے مو تی ٹپک کر اُن کی داڑھی مبا رک پر آکر چمکنے لگے و ہ دعا مانگتے رہے اورمیں عشق و سرور میں بھٹکتا رہا پھر دعا کے بعد بابا جی نے مجھے پکڑا اپنے قریب کیا اور میرے ما تھے پر بو سہ دیا بابا جی کے بو سے کی حرارت میری روح کی گہرائیوں میں چاند ستا روں کی طرح روشنی بکھیرتی گئی۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: [email protected]
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org