کابل انتظامیہ کو شٹ اپ کال دینا ضروری ہو گیا ہے

Rajnath Singh

Rajnath Singh

تحریر : محمد اشفاق راجا
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی پاکستان پر دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کی سرپرستی کا الزام لگا کر اس کی سالمیت کے خلاف مذموم بھارتی عزائم کا اظہار کر رہے ہیں اور افغان صدر اشرف غنی بھی پاکستان کے خلاف یہی لب و لہجہ اختیار کئے ہوئے ہیں تو اس سے پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ کمزور کرنے کی کابل اور دہلی کی مشترکہ سازشوں کا ہی عندیہ ملتا ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے کردار پر بدستور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ پاکستان کو اب اپنی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنی قومی خارجہ پالیسی پر بہر صورت نظرثانی کرنا ہو گی۔ ہماری معیشت پر گزشتہ چار دہائیوں سے بوجھ بنے افغان مہاجرین کو مزید پالنے پوسنے کا اب کوئی جواز نہیں۔ ان کے پاکستان میں قیام میں مزید توسیع کیلئے کابل انتظامیہ کی مزید کوئی درخواست قبول نہ کرنے کا ہماری جانب سے درست فیصلہ کیا گیا ہے اور اب بہتر یہی ہے کہ تمام افغان مہاجرین کو جلد سے جلد افغانستان واپس بھجوا دیا جائے۔

اسی طرح اب دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری بیش بہا قربانیوں پر بھی ہمارے ساتھ طوطا چشمی کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو ہمیں بھی اب اپنے مفادات ہی عزیز ہونا چاہیں۔ ہماری جانب سے کابل انتظامیہ کو شٹ اپ کال دینا بھی اب ضروری ہو گیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی طالبان کو علاقے کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ انکے ملک کو پاکستان کی جانب سے غیر اعلانیہ جنگ کا سامنا ہے جس نے انکی امن کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ گزشتہ روز لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں سیاسی تشدد کی پانچویں لہر کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان مختلف ممالک کے جنگجوئوں کی سرزمین بن رہا ہے۔ ان کے بقول متذکرہ جنگجوئوں میں سب سے زیادہ پاکستان سے لوگ متحرک ہیں۔

ہمارا بنیادی مسئلہ پاکستان کے ساتھ امن ہے جس کی جانب سے ہمارے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان گیارہ مرتبہ گئے ہیں اور اس دوران پوری کوشش کی کہ امن کی شاہراہ تعمیر ہو مگر ہمارے بڑھائے ہوئے ہاتھ کو تھاما نہیں گیا۔ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ کیوں بھیجے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو ٹھکرا دیا کہ افغانستان القاعدہ کیلئے محفوظ جنت بن رہا ہے تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ گروپ افغانستان میں اپنا نیٹ ورک بنا رہا ہے۔ ان کے بقول تحریک طالبان پاک فوج کے آپریشن کے باعث افغانستان آ رہی ہے۔ اگر ملا فضل اللہ کو سات زندگیاں ملیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان نے حقانی گروپ یا طالبان قیادت کے خلاف کوئی ایک بھی آپریشن کیا ہے۔ ان کے بقول افغانستان نے جب بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑی ہے تو اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جس کی ہماری تاریخ گواہ ہے۔

Afghanistan

Afghanistan

افغانستان کی تاریخ تو اس امر کی شاہد ہے کہ کابل کے حکمرانوں نے شروع دن سے ہی پاکستان کے ساتھ خداواسطے کا بیر رکھا ہے۔ چنانچہ ظاہر شاہ سے اب تک ہمیں افغان سرزمین کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ سب سے افسوسناک یہ صورت حال ہے کہ افغان جنگ کے دوران، جس کیلئے سابق افغان صدر کرزئی نے امریکی مخبر کا کردار ادا کرتے ہوئے نیٹو فورسز کے ہاتھوں افغانستان کا تورا بورا بنوایا اور اس کے صلے میں اپنے اقتدار کے لئے امریکی بیساکھیاں حاصل کیں، کابل انتظامیہ نے اس خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کی خاطر پاکستان کی جانب سے دی گئی بیش بہا قربانیاں بھی یکسر فراموش کر دیں، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ امریکی نائن الیون کے بعد ہمارے اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے اپنے اقتدار کی بقاء کی خاطر دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور اس کے ردعمل میں ہمارا وطن عزیز خود ملکی اور علاقائی سلامتی کے خلاف دہشت گردوں کے مذموم عزائم کا نشانہ بن گیا۔

دہشت گردی کی جنگ تو درحقیقت پاکستان نے اپنے برادر پڑوسی مسلم ملک افغانستان کے تحفظ کی خاطر لڑی تھی جس میں افغان دھرتی پر موجود امریکی نیٹو افواج کو پاکستان نے لاجسٹک سپورٹ فراہم کی اور ہمارے ائر بیسز سے ہی نیٹو کے جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر اڑان بھر کر افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے رہے۔ چنانچہ ہمیں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے امریکہ، افغانستان اور نیٹو ممالک کے اتحادی ہونے کی سزا اپنی سرزمین پر بدترین دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑی۔ چاہے رسمی طور پر ہی سہی آج پوری دنیا دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کردار کی معترف ہے اور امریکی پالیسی ساز اداروں کی رپورٹوں میں اس امر کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں جس کے سکیورٹی فورسز کے ارکان سمیت 60 ہزار سے زائد شہری خودکش حملوں، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں شہید ہوئے ہیں۔ جبکہ اس جنگ میں ہماری معیشت کا سو ارب ڈالر کے قریب نقصان ہوا ہے۔

مگر اس کا صلہ ہمیں امریکہ کی جانب سے ہمارے کردار پر بد اعتمادیوں کے اظہار، ڈومور کے تقاضوں اور افغانستان کی جانب سے بھارتی لہجے میں سنگین نتائج کی دھمکیوں کی صورت میں ملا جبکہ کرزئی نے نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دینے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بھارت تو ویسے ہی اپنے مذموم مقاصد کے تحت ہماری سلامتی کے درپے ہے جس نے افغان جنگ میں ہمارے کردار کے باعث ہماری سرزمین کے دہشت گردوں کے عزائم کی زد میں آنے سے پیدا ہونے والے حالات کا فائدہ اٹھا کر خود بھی ہماری سلامتی پر اوچھا وار کرنے کی نیت سے پاکستان کے اندر اپنا جاسوسی کا نیٹ ورک پھیلانا شروع کر دیا جبکہ اس معاملہ میں افغانستان نے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے کر بھارتی عزائم کی تکمیل کیلئے اس کی بھرپور معاونت کی۔

Raw

Raw

اس حوالے سے ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس بھارتی مسلح دہشت گردوں کے افغان سرحد عبور کر کے پاکستان آنے اور یہاں بھارتی ایجنسی ”را” کے قائم شدہ نیٹ ورک کی سرپرستی میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں جو پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت سے موجودہ دور حکومت تک بھارتی حکومت کے علاوہ اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کو بھی فراہم کئے جا چکے ہیں مگر بجائے اس کے کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف ان بھارتی اور افغان سازشوں پر دہلی اور کابل کو ‘شٹ اپ’ کال دی جاتی، امریکہ نے اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں اور بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اس کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدوں کے انبار لگا دیئے جن کی بدولت بھارت نے ہر قسم کے جدید روائتی اور ایٹمی ہتھیار حاصل کر کے پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ سابق بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ، نے جو اس وقت بی جے پی حکومت میں اہم منصب پر فائز ہیں امریکہ بھارت معاہدوں کے زعم میں ہی بیجنگ اور اسلام آباد کو 90 گھنٹوں میں بیک وقت ٹوپل کرنے کی بڑ ماری تھی جبکہ سابق افغان صدر کرزئی تو اپنے اقتدار کی آخری ٹرم کے دوران پاکستان کے ساتھ کھلم کھلا دشمنی کا اظہار کرتے نظر آئے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ کے دوران بھی اور افغانستان سے نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد بھی کابل انتظامیہ نے افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے بنانے والے دہشت گردوں اور انتہاء پسند افغان تنظیموں کے کریک ڈائون کیلئے ازخود کبھی کوئی آپریشن نہیں کیا اور دہشت گردوں کے ان ٹھکانوں کے حوالے سے بھی الزامات پاکستان پر ہی عائد کئے جاتے رہے حالانکہ افغان سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرنا کابل انتظامیہ کی اپنی ذمہ داری تھی۔ اس کے برعکس پاکستان نے اپنی سکیورٹی فورسز کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات اور اب آپریشن ضرب عضب شروع کیا ہے تو اس کا مقصد صرف پاکستان نہیں بلکہ افغانستان سمیت پورے خطہ کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانا ہے جس میں بلا امتیاز تمام دہشت گردوں کے خلاف بے لاگ اور ٹھوس کارروائیاں کرتے ہوئے ہماری سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں نے بیش بہا جانی قربانیاں بھی دی ہیں جبکہ آپریشن کے دوران ہماری سکیورٹی فورسز اور قوم کی جانب سے قربانیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

اس تناظر میں توقع یہی تھی کہ اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد کابل انتظامیہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کی سرکوبی کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرے گی۔ ا شرف غنی کے گزشتہ سال کے دورہ اسلام آباد اور جی ایچ کیو راولپنڈی میں انہیں دی گئی بریفنگ کی روشنی میں بادی النظر میں پاکستان اور افغانستان کے مابین خیرسگالی کے تعلقات بحال ہوتے بھی نظر آئے مگر پھر اشرف غنی اپنے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان کے کٹڑ دشمن بھارتی وزیراعظم مودی کے چکمے میں آ گئے جن کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کر کے اشرف غنی نے بھی اپنے پیشرو کرزئی کے لب و لہجہ میں پاکستان کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے پلیٹ فارم پر افغانستان میں قیام امن کی خاطر عالمی قیادتوں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ افغانستان ٹی ٹی پی کے قائد ملا فضل اللہ سمیت پاکستان پر حملہ آور ہونے والے تمام دہشت گردوں کی اپنی سرزمین پر سرپرستی بھی خود کر رہا ہے اور اپنے اور امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے وہ پاکستان کے کردار کا بھی متقاضی ہے مگر پاکستان کی قربانیوں کو دیکھ اور بھانپ کر بھی وہ امریکی اور بھارتی لب و لہجے میں پاکستان ہی کو مورد الزام ٹھہراتا نظر آتا ہے۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا