کابل (جیوڈیسک) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پارلیمان کی عمارت کے نزدیک مصروف اوقات میں دو بم دھماکے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں تیس افراد ہلاک اور کم سے کم اسی زخمی ہو گئے ہیں۔
طالبان مزاحمت کاروں نے ان دونوں بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کر لی ہے جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے ان کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ طالبان بڑی بے شرمی سے بے گناہ شہریوں پر حملے کی ذمے داری قبول کررہے ہیں۔ ادھر جنوبی شہر قندھار میں متحدہ عرب امارات کے سفیر اور قندھار کے گورنر ایک اور بم حملے میں بال بال بچ گئے ہیں۔
پارلیمان کے زابی نامی ایک زخمی محافظ نے بتایا ہے کہ پہلا دھماکا پارلیمان کے باہر ہوا تھا۔اس وقت ملازمین عمارت سے باہر نکل رہے تھے۔یہ بم دھماکا ایک پیدل خودکش بمبار نے کیا تھا اور اس سے متعدد بے گناہ ملازمین ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔
اس نے مزید بتایا ہے کہ دوسرا کار بم دھماکا تھا اور وہ شاہراہ کے دوسری جانب ہوا ہے۔ وہاں بارود سے بھری ایک کار کھڑی کی گئی تھی اور اس کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے۔ایک سکیورٹی عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں اور ان میں پارلیمان کے ملازمین بھی شامل ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق دونوں دھماکے پارلیمان کی انیکسی کے نزدیک ہوئے ہیں۔یہاں بعض ارکان پارلیمان کے دفاتر ہیں جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان بم حملوں میں افغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
افغان وزارت صحت کے ترجمان وحید مجروح نے بتایا ہے کہ اسی زخمیوں کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے اور ان میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے۔اس لیے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
قبل ازیں منگل کی صبح جنوبی صوبے ہلمند کے دارالحکومت لشکرگاہ میں ایک بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔