’کابل ہوائی اڈے کے تمام دروازے خطرات سے دوچار ہیں‘

Kabul

Kabul

کابل (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ نے افغان دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے کے آس پاس موجود تمام امریکیوں کو ایک خاص اور کافی حد تک یقینی خطرے کی وجہ سے تاکید کی ہے کہ وہ جلد از جلد یہ علاقہ چھوڑ دیں۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایئرپورٹ کے آس پاس کے علاقہ میں ممکنہ حملوں کے اشارے ملنے پر امریکی محکمہ خارجہ نے ہوائی اڈے کے قریبی علاقوں میں موجود تمام امریکی باشندوں پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اس علاقے سے نکل جائیں۔ یہ انتباہی پیغام آج اتوار 29 اگست کی صبح جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمام امریکی شہری کابل ہوائی اڈے کے تمام دروازوں کی طرف بڑھنے سے گریز کریں اور سفر کی کوشش میں ایئرپورٹ کا رُخ نہ کریں۔

اس تازہ ترین انتباہی اعلان میں خاص طور سے افغانستان کی نئی وزارت داخلہ، جنوبی ایئرپورٹ کے ارد گرد کے علاقے میں قائم دروازے اور پنجشیر پٹرول اسٹیشن کے نزدیک واقع گیٹ، جو کابل ایئرپورٹ کے شمال مغرب کی طرف پایا جاتا ہے، کو جلد از جلد چھوڑ دینے کو کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات 26 اگست کو کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 169 افغان شہری اور امریکی سروسز کے 13 اراکین ہلاک ہو گئے تھے۔

دریں اثناء آسٹریلیا کی حکومت نے بھی ایسا ہی انتباہی اعلان کرتے ہوئے کابل ایئرپورٹ کی طرف رُخ کرنے سے باز رہنے پر زور دیا ہے۔

طالبان ذرائع نے خبررساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ طالبان اور امریکی فوجی کابل ایئرپورٹ کا انتظام جلد از جلد طالبان کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ طالبان عہدیدار کا کہنا تھا، ”ہم کابل ایئرپورٹ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور اسے اپنی عمل داری میں لینے کے لیے امریکا کی حتمی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ طالبان کے اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اس گروپ کے پاس تکنیکی ماہرین اور انگجینیئرز کی ایک ٹیم موجود ہے جو کابل ہوائی اڈے کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔

برطانیہ اور فرانس اقوام متحدہ سے کابل میں ایک ‘سیف زون‘ یا محفوظ علاقہ قائم کرنے کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔ یہ مطالبہ پیر کو ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک ہنگامی میٹنگ میں پیش کیے جانے کی امید ہے۔ اس بارے میں فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے ایک فرانسیسی ہفت نامے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہماری مجوزہ قرار داد کا مقصد کابل میں اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول ایک محفوظ زون کی وضاحت کرنا ہے، جو انسانی بنیادوں پر کام جاری رکھے گا۔‘‘

اُدھر برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ افغانستان سے برطانوی فوجیوں کے انخلا کا مشن مکمل ہوگیا ہے اور کابل سے برطانوی فوجی اہلکاروں کو لے کر آخری پرواز روانہ ہو چُکی ہے۔ برطانیہ کے وزیر دفاع بین ویلیس نے اعلان کیا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 15 ہزار برطانوی باشندوں کو کابل سے نکالا جا چُکا ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پیغام میں تحریر کیا، ”ہمیں اپنی مسلح افواج پر فخر ہونا چاہیے، ان افراد کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جو اب ایک بہتر زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے۔‘‘ برطانوی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا، ”ہمارے وہاں سے جانے کے ساتھ ان کی ہم پر ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔‘‘

فرانس طالبان اور قطری نمائندوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جس کا مقصد انخلا کے لیے فرانس کی فہرست میں موجود ان افغانوں کی کو وہاں سے نکالنا ممکن بنانا ہے جو انخلا کے فرانسیسی آپریشن بند ہونے سے پہلے وہاں سے نہیں نکل پائے۔ فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے ہفتے کے روز سے عراق کی میزبانی میں بغداد میں شروع ہونے والی دو روزہ علاقائی کانفرنس میں شریک ہیں۔ جہاں انہوں نے پہلے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات نہایت نازک اور عارضی سطح پر ہیں۔ ماکروں کا مزید کہنا تھا، ”ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں ہدف شدہ انخلا کے آپریشن کو جاری رکھیں، ان خواتین اور مردوں کو نکالنے کے لیے جن کی ہم شناخت کر چُکے ہیں۔‘‘

فرانسیسی صدر نے مزید کہا، ”سکیورٹی شرائط کے ساتھ ایئر لائنز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان شرائط کی وضاحت ہنوز باقی ہے۔‘‘ ماکروں نے اس امر پر مزید روشنی نہیں ڈالی۔