کابل (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے باہر نکلنے کے لیے ہزاروں افغان اور غیر ملکی شہریوں کا کابل ہوائی اڈے پر ہجوم ہے۔ اس دوران پیر کے روز مغربی ملکوں کی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں ایک افغان گارڈ ہلاک ہو گیا۔
جرمن مسلح فورسز نے پیر کے روز بتایا کہ کابل ہوائی اڈے کے شمالی گیٹ کے پاس لوگوں کے ہجوم کو کنٹرول میں کرنے کے لیے امریکی اور جرمن فورسز کو فائرنگ کرنی پڑی۔ اس میں ایک افغان گارڈ ہلاک اور تین دیگر زخمی ہو گئے۔
جرمن مسلح فورسز نے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ ہلاک ہونے والا افغان گارڈ آیا طالبان جنگجووں کی طرف سے ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے تعینات تو نہیں کیا گیاتھا؟
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جرمن فورسز نے بتایا کہ پیر کی صبح کو یہ لڑائی افغان سکیورٹی فورسز اور ”نامعلوم حملہ آوروں” کے درمیان ہوئی۔ جرمن فورسز نے ایک ٹوئٹ میں کہا،”ایک افغان سکیورٹی افسر ہلاک ہو گیا جب کہ دیگر تین زخمی ہو گئے۔” اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کارروائی میں امریکی اور جرمن فورسز بھی شامل تھیں۔ لیکن کوئی جرمن فوجی زخمی نہیں ہوا ہے۔
ابھی یہ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے کہ حملہ آور کون تھے۔ کابل ہوائی اڈے کے اندر کا کنٹرول امریکا کے ہاتھوں میں ہے جب کہ طالبان ہوائی اڈے کے باہر کے علاقے کی حفاظت پر مامور ہیں۔ انہوں نے ہوائی اڈے کے اندر نیٹو یا افغان فورسز پر اب تک کوئی فائرنگ نہیں کی ہے۔
دارالحکومت کابل پر 15اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی کابل ہوائی اڈے پر افراتفری کا ماحول ہے۔ امریکا اور دیگر بین الاقوامی فورسز وہاں سے اپنے اور دیگر ممالک کے علاوہ افغان شہریوں کو بھی باہر نکلنے میں مدد کر رہی ہیں۔
اتوار کے روز جب ہوائی اڈے کے قریب لوگوں کا ہجوم بے قابو ہوگیا تو طالبان نے ان پر لاٹھیاں برسائیں۔ طالبان کے کسی ممکنہ انتقامی کارروائی کے خوف سے لوگ غیرملکی فورسز کے انخلاء کی آخری تاریخ 31 اگست سے پہلے پہلے ہی افغانستان چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔
برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس وقت ہزاروں افراد کابل ہوائی اڈے کے آس پاس موجود ہیں جو ملک سے نکل جانا چاہتے ہیں۔
ہفتے کے روز کابل ہوائی اڈے پر افراتفری کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اتوار کے روز برطانوی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ”کابل میں (ہوائی اڈے پر) مجمعے میں شامل سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ وہاں حالات انتہائی پیچیدہ ہیں مگر ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کہ صورت حال سے تمام ممکنہ محفوظ طریقے سے نمٹیں۔”