تحریر: سید انور محمود گذشتہ چند ماہ میں افغان دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑے حملے ہوئے ہیں جو افغانستان کی خراب سکیورٹی کی صورتحال ظاہر کرتے ہیں۔ کابل میں بدھ 31 مئی 2017 کو سفارتی علاقے میں بم دھماکے سے 90 افراد ہلاک اور 350سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دھماکا کابل میں اس مقام پر ہوا جہاں متعدد غیر ملکی سفارت خانے موجود ہیں جبکہ کابل کا صدارتی محل بھی قریب ہی واقع ہے۔ عام افغانی شہریوں کے علاوہ سفارتی عملے کے بھی کئی افراد اس حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں جن میں پاکستانی عملہ بھی شامل ہے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق دھماکا اتنا شدید تھا کہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا جبکہ تیس گاڑیاں بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ دہشتگرد تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے دہشتگردی کی زمہ داری قبول کرلی ہے جبکہ افغان طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ان کی تحریک اس حملے میں ملوث نہیں ہے۔ طالبان کے ترجمان نے ایسے خونریز حملوں کی مذمت بھی کی، جن میں شہریوں کی ہلاکت ہوتی ہے(طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں ہمیشہ شہری ہلاکتیں ہوتی ہیں اور پاکستان میں تو انہوں نے تقریباً 65 ہزار شہری ہلاک کیے ہیں)۔
افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھی اس خونریز کارروائی پر کابل حکومت کے ساتھ اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ایشیائی اور مغربی ممالک نے بھی انسانی جانوں کے اتنے زیادہ ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس دھماکے سے پہلے 26مئی 2017 جمعہ کو صوبہ قندھار میں ایک فوجی اڈے پر طالبان کے حملے میں کم از کم 15 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ 27 مئ 2017 سنیچر کوافغانستان کے مشرقی شہر خوست میں ایک خودکش کار حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ گذشتہ ماہ طالبان نے شمالی شہر مزارشریف میں ایک فوجی کمپاؤنڈ پر حملہ کرکے کم از کم 135 افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ گیارہ ستمبر2001کے واقعے کےبعد امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا، اور پھر گذشتہ سولہ سال سے افغان عوام ایک ایسی جنگ لڑرہے ہیں جس میں ہزاروں ہلاکتوں ہونے اور اربوں ڈالر خرچ ہونے کے باوجود افغانستان کے حالات بہتر نہ ہوسکے ۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کو مغرب کی حمایت تو حاصل ہے لیکن یہ ایک کمزور حکومت ہے، کچھ معاملات میں یہ بھارت کی ایک کٹھ پتلی حکومت لگتی ہے۔ اس کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں اور اس کا اثرو رسوخ بھی محدود ہے۔ دوسری جانب طالبان باغی ہیں، جو ملک کے بڑے حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔2014 میں افغان طالبان کے خلاف امریکہ نے اپنی فوجی کارروائیاں ختم کردی تھیں تاہم افغان فوج کی مدد کےلیے اس کے خصوصی دستے تاحال تعینات ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ تین سال میں ملک کے ایک تہائی حصے پر افغان طالبان کا کنٹرول سمجھا جاتا ہے۔
افغانستان کی موجودہ بدتر صورتحال کی وجہ سے خود افغان حکومت تقسیم ہو چکی ہے اور اس میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ افغانستان کے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بگڑتے جا رہے ہیں، افغان صدر اشرف غنی بھارت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ جاری لڑائی طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں امریکی فضائی حملےتین گنا کر دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کے شکارہے۔اقوام متحدہ کے مطابق سال 2017 کے ابتدائی چار مہینوں میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس سال بے گھر ہونے والوں میں بیالیس فیصد کا تعلق افغانستان کے ان شمالی علاقوں سے ہے، جو ماضی میں انتہائی پر امن خیال کیے جاتے تھے۔ان افراد کے بے گھر ہونے کی وجہ افغان فوج اور دہشتگرد تنظیموں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں شدت اور اضافہ ہے۔ مسلسل جنگی حالات کی وجہ سے غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے، غریب لوگ روزگار کی تلاش میں شورش زدہ علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔جس کے بعد یہ علاقے دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے بنتے جا رہے ہیں۔ کابل کو دہشتگرد مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ آج توخود سفارت کاروں کو مضبوط اور اونچی اونچی دیواروں کے پیچھے چُھپنا پڑ رہا ہے اور پھر بھی وہ وہاں محفوظ نہیں ہیں۔
اگرچہ اس حملے کی زمہ داری داعش قبول کرچکی ہے لیکن کابل انتظامیہ نے اپنی انگلی حقانی نیٹ ورک اور آئی ایس آئی کی طرف کردی ہے۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، کابل میں ہونے والے حالیہ حملے کے پیچھے حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے اور حقانی نیٹ ورک نے یہ حملہ آئی ایس آئی کے تعاون سے کیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم نواز شریف اورآرمی چیف جنرل باجوہ نے اس حملے پر نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ ہر قسم کے تعاون کی پیشکش بھی کی ہے۔ ممتاز تجزیہ نگار اکرم ذکی کی رائے میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہہ فریقی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے عوامل بھی اس حملے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔اس حملے کے بعد مینڈکی کو بھی زکام ہوگیا کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اور بھارت کی پیروی کرتے ہوئے افغان کرکٹ بورڈ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ طے پانے والے میچوں اور کرکٹ کے تعلقات کو منسوخ کردیا ہے۔ شایدافغانیوں کےلیے کسی کا احسان ماننا بہت مشکل ہے یہ ہی وجہ کہ جس پاکستان نے انکو انگلی پکڑکرکرکٹ کھیلنا سیکھائی ہےاس کے ساتھ ہی احسان فروشی کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
ہر پاکستانی کابل اور دوسرئے شہروں ہونے والی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستان نے ہر طرح افغانستان کی مدد کی ہے، آج بھی لاکھوں افغان باشندئے قانونی اور غیر قانونی طور پرپاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان بھی دہشتگردی کا شکار ملک ہے اس لیےدونوں ممالک کو چاہیے کہ بات چیت کے زریعے ایک دوسرئے سے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کریں، اگر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کیا اور ایسی پالیسیاں نہ اپنائیں، جو دونوں کے مفاد میں ہوں تو پاکستان اور افغانستان دونوں ہی کا نقصان ہو گا۔