کابل (جیوڈیسک) افغانستان کے دارالحکومت کابل پیر کو دیر گئے ایک اور بم دھماکے سے گونج اٹھا جب کہ قبل ازیں ہونے والے دو بم دھماکوں میں کم ازکم 30 افراد ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس تیسرے بم دھماکے کے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں اور بتایا جاتا ہے کہ اس کا ہدف وہ گیسٹ ہاوس تھا جہاں غیرملکی کو آنا جانا ہے۔
افغان اسپیشل فورسز فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ گئیں اور وہاں ان کی کم از کم دو حملہ آوروں سے جھڑپ ہوئی جو گیسٹ ہاوس میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
قبل ازیں کابل میں وزارت دفاع کی عمارت کے قریب یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے۔ افغان وزارت صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بم دھماکوں میں 91 افراد زخمی بھی ہوئے۔
جب کہ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی کے مطابق بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں میں ضلعی پولیس سربراہ اور دیگر پانچ پولیس افسران بھی شامل ہیں۔
افغان وزارت دفاع کے ایک ترجمان کے مطابق پہلے بم دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز کے اہلکار موقع پر پہنچے تو ایک خودکش بمبار نے دوسرا بم دھماکا کر دیا۔
ترجمان کے مطابق مارے جانے والوں میں فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔ بم دھماکے ایسے وقت ہوئے جب وزارت دفاع کے ملازمین چھٹی کے بعد واپس جا رہے تھے۔
افغان صدر اشرف غنی نے ان بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے دشمن سکیورٹی فورسز سے مقابلہ کرنے کی سقت کھو چکے ہیں، جس کی وجہ سے اب وہ شاہراہوں، شہروں، مساجد، اسکولوں اور عام لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے ایک بیان میں پیر کو ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ طالبان کے ترجمان نے دعویٰ کہ بم دھماکوں میں درجنوں فوجی اور دیگر افسران ہلاک و زخمی ہوئے۔
واضح رہے کہ طالبان ایسے حملوں میں سرکاری فورسز کو پہنچنے والے نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ 2014ء کے اواخر میں جب سے افغانستان سے بیشتر بین الاقوامی افواج کی واپسی ہوئی، طالبان کی کارروائیوں میں تیزی ہے۔
ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے کہ کابل میں امریکن یونیورسٹی پر شدت پسندوں نے حملہ کر کے طالب علموں اور پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 13 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔