واشنگٹن (جیوڈیسک) مسلح افراد نے بدھ کے روز افغان دارالحکومت کابل میں برطانوی سکیورٹی کے کانٹریکٹروں کے دفتر پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک جب کہ 19 زخمی ہوئے، جس سے کچھ ہی دیر قبل صدر اشرف غنی نے افغانستان میں امن سے متعلق منصوبے کا خاکہ پیش کیا۔
طالبان نے حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ حملے کا آغاز کار بم دھماکے سے ہوا جو ’جی4ایس‘ نامی سکیورٹی گروپ کی تنصیب کے باہر سڑک پر ہوا، جو مشرقی افغانستان کے لیے آمد و رفت کا اہم راستہ ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان، نجیب دانش نے بتایا ہے کہ ’’کار بم حملے کے بعد کئی مسلح افراد ’جی4ایس‘ کی عمارت میں داخل ہوئے‘‘۔
ایک انتہائی محفوظ تنصیب پر اس پیچیدہ نوعیت کاحملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کابل اب بھی کتنا غیر محفوظ ہے، حالانکہ امریکہ اور افغان حکومت 17 برس سے زیادہ مدت سے جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کرنے والے ہیں۔
افغان قومی سلامتی کے مشیر، حمد اللہ محب نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’یہ بدقسمتی سے اس طرح کے واقعات امن کے ہمارے عزم کو تقویت بخشتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے یہ بات جنیوا میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں منعقدہ کانفرنس کے احاطے کے باہر اخباری نمائندوں کو بتائی، جہاں غنی نے طالبان کے ساتھ امن کے قیام پر زور دیا۔
باغی گروپ کے اہم ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ’’حملے کے نتیجے میں بیشمار ہلاکتیں ہوئی ہیں‘‘، اور یہ کہ ’’یہ اُن ہلاکتوں کا بدلہ ہے جو سکیورٹی افواج نے ہلمند اور قندھار کے جنوبی صوبوں میں کی ہیں‘‘۔
’جی4ایس‘ دنیا میں سکیورٹی کے سب سے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ افغانستان میں متعدد غیر ملکی سکیورٹی کانٹریکٹر کام کرتے ہیں۔ یہ گروپ برطانوی سفارت خانے کے گِرد علاقے کے لیے محافظ فراہم کرتا ہے۔
’جی4ایس‘ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کابل میں ہماری تنصیبات پر واقعہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال جاری ہے۔ ہم افغان حکام سے رابطے میں ہیں، تاکہ اسے ختم کیا جاسکے‘‘۔
صحت عامہ کی وزارت کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ کم از کم 10 میتیں اور 19 زخمیوں کو شہر کے اسپتالوں کی جانب منتقل کیا گیا ہے۔ لیکن، رات گئے تک احاطے سے حملہ آوروں کو نکالنے کی کارروائی جاری ہے۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد معلوم نہیں ہے۔