کابل (اصل میڈیا ڈیسک) پچھلے کچھ دنوں سے حکومت کی تشکیل پر طالبان رہنماؤں کے درمیان بڑے اختلافات پھیلنے کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہیں۔ دارالحکومت کابل میں صدارتی محل میں طالبان کی حکومت کے نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر اور حقانی نیٹ ورک کے رہ نما خلیل الرحمان حقانی کے درمیان مبینہ “لڑائی” یا ہاتھا پائی کی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں۔
طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان جاری اسی محاذ آرائی کے بعد ملا برادر کو ایک ویڈیو میں سامنے آنے اور صورت حال سے آگاہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ویڈیو پیغام میں ملا عبدالغنی براد نے کہا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ وہ کابل سے باہر تھے، اس لیے وہ میڈیا سے بات چیت نہیں کرسکے۔ انہیں کوئی چوٹ آئی ہے اور نہ ہی طالبان کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا ہے۔
ملا عبدالغنی برادر کی طرف سے اپنی صحت اور طالبان کے درمیان جھگڑے کے بارے میں اٹھنے والی افواہوں کو دور کرنے کے ویڈیو بیان نے بھی شکوک و شبہات کو دور نہیں کیا۔ کابل ایوان صدر میں ہونے والی کشیدگی سے باخبر افراد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر’بلومبرگ‘ کو بتایا کہ امریکا اور اس کے اتحادی جس طالبان لیڈر (ملا عبدالغنی برادر) کو ایک اعتدال پسند رہ نما کے طور پر دیکھتے ہیں اسے کابل محل میں فائرنگ کے ڈرامائی تبادلے کے دوران خاموش کرا دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عبدالغنی برادر مخالف دھڑے کے سامنے شکست کھا گئے اور کابل چھوڑ گئے۔
ذرائع نے بتایا کہ امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کی قیادت کرنے والے عبدالغنی برادر پر حکومت سازی کے مذاکرات کے دوران حقانی نیٹ ورک کے ایک رہ نما نے جسمانی حملہ کیا تھا۔ حقانی نیٹ ورک کے اس عہدیدار کوامریکا نے ستمبر کے اوائل میں دہشت گرد قرار دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے دوسرے اہم ترین رہ نما عبدالغنی برادر ایک “جامع” حکومت کے لیے زور دے رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں طالبان کے علاوہ دوسرے طبقات اور اقلیتوں کو بھی نمائندگی دی جائے تاکہ ان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران کسی موقع پر خلیل الرحمٰن حقانی اپنی کرسی سے اٹھے اور عبدالغنی برادر کو گھونسے مارنے لگے۔ اس کے بعد ان کے محافظ لڑ پڑے اور ایک دوسرے پر فائرنگ کی جس سے ان میں سے متعدد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
اس ہاتھا پائی میں اگرچہ عبدالغنی برادر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا مگر وہ ناراض ہو کر کابل سے چلے گئے۔ وہ قندھار چلے گئے تاکہ صورت حال کے بارے میں تحریک کے سربراہ ملا ھیبت اللہ سے بات کریں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 7 ستمبر کو اعلان کردہ حکومت کی تشکیل میں طالبان کے باہر سے کوئی بھی شامل نہیں کیا گیا۔ حقانی خاندان کے 4 افراد کو حکومتی عہدے دیے گئے ہیں۔ ان میں سراج الدین حقانی بھی شامل ہین جنہیں امریکا نے ایک اشتہاری قراردے کران کی گرفتاری پر بھاری رقم کا اعلان کررکھا ہے۔
گزشتہ ہفتے طالبان کے ارکان نے تصادم کی خبروں کی تردید کی تھی۔ پریڈر سرکاری ٹیلی ویژن پر بعد میں ان افواہوں کی تردید کرنے کے لیے بھی نمودار ہوا کہ وہ زخمی ہوئے یا مارے گئے۔ مختصر تقریر میں ، انہوں نے کہا: “میں ٹھیک ہوں اور صحت مند ہوں” ، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ میڈیا نے اندرونی تنازعات کے بارے میں جو خبر دی ہے وہ غلط ہے۔