کابل (جیوڈیسک) افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک پرتعیش ہوٹل میں فوجی وردی میں ملبوس پانچ دہشت گردوں نے حملے کے دوران افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہفتے اور اتوار کی رات جاری رہنے والی لڑائی میں کم سے کم 30 افراد کو ہلاک اور بہت سے دیگر کو زخمی کر دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
وزارت صحت کے ترجمان واحد مجروح نے بتایا ہے کہ 19 لاشیں ہسپتال میں پہنچائی گئی ہیں جن میں چھ غیر ملکی شامل ہیں۔ تاہم افغانستان کے ایک اعلیٰ سیکورٹی اہکار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 30 سے زائد ہے اور اس میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اہلکار کے مطابق مرنے والوں میں ہوٹل کے عملے اور مہمانوں کے علاوہ دہشت گردوں کے ساتھ لڑنے والے سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے تصدیق کی ہے کہ تمام کے تمام پانچ دہشت گرد ہلاک کر دئے گئے ہیں۔ یوکرین کے وزیر خارجہ پاولو کرمکن نے ٹویٹ کے زریعے اطلاع دی ہے کہ مرنے والوں میں یوکرین کے چھ شہری بھی شامل ہیں۔
ہوٹل کی عمارت میں آگ بھڑک اُٹھنے کے بعد ہوٹل میں مقیم 150 مہمان باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے جن میں سے کچھ بستر کی چادروں کے ذریعے ہوٹل کی بالائی منزلوں سے کود گئے جبکہ باقی کو سیکورٹی اہلکاروں سے ہوٹل سے نکالا۔
مقامی ایئر لائن کام ایئر کا کہنا ہے کہ اُس کے 40 پائلٹ اور عملے کے دیگر ارکان اس ہوٹل میں مقیم تھے جن میں سے 10 ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایئر لائن کے ڈپٹی ڈائریکٹر زماری کامگر نے کہا ہے کہ وہ عملے کے دیگر ارکان کو تلاش کر رہے ہیں۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ وزارت داخلہ نے ایک بیان میں اس حملے کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا ہے۔
عبدالرحمان ناصری جو ایک کانفرنس کے سلسلے میں اس ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے، بتایا کہ اُنہوں نے ہوٹل کے ہال میں فوجی وردی میں ملبوس چار عسکریت پسندوں کو دیکھا۔ وہ پشتو میں بلند آواز میں کہ رہے تھے، ’’کسی کو بھی زندہ مت چھوڑو، چاہے اچھے ہوں یا برے۔‘‘ جبکہ دوسرے کہا، ’’سب کو قتل کر دو۔‘‘
ناصری نے بتایا کہ وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچے اور کمرے کی کھڑکی سے ایک درخت کے سہارے نیچے کود گئے۔ تاہم درخت کی ٹہنی ٹوٹ گئی اور وہ نیچے گر پڑے۔ یوں اُن کی کمر میں چوٹ لگی جبکہ ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔
اگرچہ سیکورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لڑائی ختم ہو چکی ہے، ہوٹل کے عمارت سے اب بھی وقفے وقفے سے گولیاں چلنے اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
ہوٹل کے منیجر حارث نایاب کا کہنا ہے کہ دہشت گرد ہوٹل کے کچن کے ذریعے ہوٹل کے مرکزی حصے میں پہنچے۔ ایک اعلیٰ سیکورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ حملہ آور پہلی منزل سے براہ راست چوتھی اور پانچویں منزل پر پہنچے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حملے کی تیاری بھرپور طریقے سے کی گئی تھی اور اس کیلئے ممکنہ طور پر اُنہیں ہوٹل کے اندر سے مدد حاصل تھی۔
یہ کابل کا دوسرا بڑا پرتعیش ہوٹل ہے جو ایک پہاڑی چوٹی پر واقع ہے اور یہاں عموماً سکیورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ اسی ہوٹل کو 2011ء میں بھی شدت پسندوں نے نشانہ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ وارث برمک نے ریڈیو فری یورپ کو بتایا کہ ایک پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی نے دو ہفتے قبل ہی اس ہوٹل کی سکیورٹی سنبھالی تھی۔
ادھر پاکستان نے اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند دن قبل ہی کابل میں امریکی سفارتخانے نے ایک انتباہ جاری کیا تھا جس میں ہوٹلوں پر دہشت گرد حملوں کی اطلاعات کا تذکرہ کیا گیا تھا۔