کابل (جیوڈیسک) جنگ زدہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شہری پہلے ہی خاصے پریشان ہیں۔ اوپر سے شہر میں بتدریج بڑھتے اسٹریٹ کرائمز شہریوں کے لیے وبال جان بنتے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں موبائل فون چھیننے کا یہ واقعہ انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے گرین زون کے علاقے میں پیش آیا۔ اس علاقے میں غیر ملکی سفارتکار رہائش پزیر ہیں اور یہاں افغان مسلح محافظوں کی پوسٹنگ بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود واردارت کے وقت متاثرہ نوجوان کی مدد کرنے کوئی نہیں آیا جو اس واردات کے دوران زخمی بھی ہو گیا۔ اس واقعے میں اس نوجوان کی مدد کے لیے متعلقہ حکام ایک گھنٹے بعد آئے اور اسے ہسپتال لےگئے۔
اس طرح کی بڑھتی وارداتوں سے شہریوں میں خوف و حراس کی فضا پائی جاتی ہے۔ جرائم پیشہ افراد اکثر لوگوں کے موبائل فون اور قیمتی اشیاء اسلحے کی نوک پر چھین لیتے ہیں۔ اس طرح کے بڑھتے واقعات قانون کی بالا دستی پر سوالیہ نشان ہیں۔
جان آقا نواز کابل میں افغان چیمبر آف کامرس کے ترجمان ہیں ان کا کہنا ہے، ’’افغانستان کو اس وقت شدید دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ کہ تمام تجارتی شخصیات اور کاروباری افراد دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ ان کو بھی ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ آٹھ مئی سن 2019 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان جنگجوؤں نے ایک غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم کے دفتر پر حملہ کیا جس میں خودکش بمباروں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔ امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکی فلاحی تنظیم کے دفتر پر حملے کی مذمت کی تھی۔
بعد ازاں 11 مئی سن 2019 کو کابل میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ٹیلی ویژن کی ایک سابق معروف خاتون صحافی ہلاک ہو گئی تھیں۔