تحریر : علی رضا شاف 18 اپریل 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم 58 کے ذریعے ٹوبی کا استعمال کرتے ہوئے اِس وقت کے معزول وزیراعظم کو اُس وقت بھی معزول کر دیا تو سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خاں نے مولوی تمیزالدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، اسی راستے پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف بھی کئی درخواستوں کا انبار لیے سپریم کورٹ پہنچ گئے عدالت عظمیٰ میںتین ہفتوں پر مشتمل سماعت کے بعد عدلیہ کے گیارہ میں سے دس ججوں نے میاں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیکر وزیر اعظم کا عہدہ بحال کر دیا اور اس وقت انہیں جی ٹی روڈ کی ریلی اور کیوں نکالا جیسے تکیہ کلام کی ضرورت پیش نہ آئی کیوں کہ تب اعلیٰ عدلیہ محترم و مکرم تھی کیوں کہ فیصلہ حق میں آیا تھا اس لئے نہ کسی جج کے کردار پر انگلی اٹھی اور ہی بینچ کی تشکیل کو کسی کی ڈکٹیشن سے منسوب کیا گیا ، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بینچ میں مخالفت کرنے والے واحد جج جسٹس سجاد علی شاہ تھے جن کو محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں چیف جسٹس سپریم کورٹ لگایا تو ان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی کہ انہوں نے دو سینئر ججوں کو بائی پاس کرتے ہوئے ان کی منظوری کی ہے لیکن جب صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹایا تو محترمہ نے بھی اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی جس پر چھ ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دیا گیا جس نے اس فیصلے کو آئینی قرار دیتے ہوئے برقرار رکھا اس بینچ کی سربراہی جسٹس سجاد علی شاہ ہی کر رہے تھے۔
تیسرا واقع جب 1997 کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت میں توہین عدالت کا مقدمہ زیر سماعت تھا تو اس وقت بھی دانیال عزیز ، طلال چوہدری وغیرہ وغیرہ کے کردار موجود تھے جب شنید ہوئی کہ جسٹس سجاد علی شاہ فیصلہ میاں صاحب کے خلاف سنانے والے ہیں تو عدالت کے باہر ہلا بول دیا گیا کسی صحافی نے عدالت کے اندر سے آواز لگائی ”مائی لارڈ وہ آرہے ہیں”جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے میاں نوازشریف کے وکیل ایس ایم ظفر کو تھنک یو کہا اور عدالت برخاست ہو گئی۔
پہلا واقع جس میں عدالت نے میاں نواز شریف کی معزولی کا فیصلہ آئین کے خلاف قرار دے کر انہیں بحال کیا اس میں میاں صاحب عدالت کے شکر گزار نظر آئے لیکن اس بینچ میں مخالفت کرنے والے واحد جج جسٹس سجاد علی شاہ کو نہ بھولے اور جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے انہیں چیف جسٹس مقرر کیا تب بھی سیاسی تاثر دیتے رہے جب اسی جج نے محترمہ کے خلاف فیصلہ سنایا تب ان کے پسندیدہ ہوگئے اور پھر جب 1997میں میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ زیر سماعت تھا تب ان کی عدالت پر حملہ کر دیا گیا جس کے بعد عدلیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں ہٹا دیا گیا ۔اس دفعہ نااہل کرنے والے ججز کو بھی میاں نواز شریف صاحب بھولے نہیں اور جی ٹی روڈ کی ریلی کے لاہور پہنچنے تک مختلف القابات سے یاد فرمارتے رہے۔۔
میاں صاحب کی سیاست کے ماضی ،حال اور مستقبل پر طائرانہ نظر دہرائی جائے تو غلطیاں اور ان پر اسرار مشترک ملتا ہے ، موجودہ حکومت کے آغازمیں معاملات اس قدر نازک نہ تھے جتنے رفتہ رفتہ ہوتے گئے اور بات نواز شریف کی نااہلی اور پھر بچوں کی عدالت میں پیشیوں تک جاری ہے جب بھی کچھ بگڑنے لگتا ہے تو میاں صاحب کی کچن کیبنٹ مزید بگاڑ اور تنائو کی جانب لیجاتی ہے معاملا ٹویٹر پر چلنے والی کمپینز سے شروع ہو کر ڈان لیکس تک جا پہنچتا ہے جس کے ذمہ دار کچن کیبنٹ کے ہی اہم رکن پر ویز رشید ٹھہرتے ہیں جو تواتر کے ساتھ جاری ہے۔
گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستانی معیشت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جس پر وزیر داخلہ برا مان گئے اور فوج کے ترجمان کو کھری کھری سنادیں یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج معیشت پر کیونکر نہ بولے آپ سی پیک کا منصوبہ ہی لے لیجئے چائنہ تب تک ساتھ چلنے کی ہامی نہیں بھرتا جب تک پاک فوج کی جانب سے مکمل سیکیورٹی کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی وہ منصوبہ جسے آپ پاکستان کا معاشی مستقبل گردانتے ہیں وہ فوج کے مرہون منت ہے پھر فوج معیشت پر اپنے کردار پر بات کرنا حق کیوں نہ سمجھے ؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم دوہرا معیار کیوں اپناتے ہیں ایک تو ہم ان کے بغیر کام کر نہیں سکتے اور پھر ان کی مداخلت پر انگلیاں بھی اٹھاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چوہدری نثار نے میاں نواز شریف کی کچن کیبنٹ کا حصہ بننا مناسب نہیں سمجھا اور وہ ہمیشہ انہیں اداروں کیساتھ محاذ آرائی سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں لیکن ایک اکیلا اور دو گیارہ پلڑا کچن کیبنٹ کا بھاری ہے جو اب تک میاں صاحب کی سبکی کا سبب بنتی جا رہی ہے ماضی میں عدلیہ سے ٹکرا ئو ہو یا جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء اداروں سے ٹکرائو کا مشورہ دینے والی کچن کیبنٹ میاں نواز شریف کے زوال کا سبب بنتی رہی ہے اور تاحال وہی پریکٹس جاری و ساری ہے جس کا نقصان مسلم لیگ ن بالخصوص نواز خاندان تو اٹھا رہا ہے دیگر سیاسی پارٹیوں کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے جو روایت انداز سے ہٹ کر کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔
اس سے بچائو چند احتیاطی و سیاسی تدابیر میں پوشیدہ ہے کچن کیبنٹ سے نکل کر موجودہ حالات کو بھانپ کر مصلحت کے تحت قومی مفاد میں فیصلے کیے جائیں ، بقول شہباز شریف کے”گاڑیوں اوروزارتوں والوں کے سحر سے آزاد ہوکر فیصلے کریں ،اب حالات وہ نہیں رہے کہ ایک جج سے آپ کا اختلاف ہوا تو عدلیہ کو منقسم کرکے جج بدل لیا جائے اب آپ کو مشیر اور وکیل بدلنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں ! اداروں سے ٹکرائوکا امر اس دفعہ آپ کو سیاسی شہادت نہیں دے پائیگا، البتہ آپ کی سیاست کو دفن کرنے کا باعث ضرور بن سکتا ہے۔