تحریر : معین احمد کالا باغ ڈیم ایک انتہائی حساس اور اہم ایشو ہے جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے آبی ذخائر اس ضمن میں ناگزیر اہمیت کے حا مل ہیں جن کے بنا ہمارا گزارہ بہت مشکل ہے لیکن یہ مسئلہ پچھلے ٥٤ سالوں سے مختلف سیاسی اور فوجی قیادتوں کے زیرغور رہنے کے باوجود حل طلب پڑا ہوا ہے۔ آزادی پاکستان کے بعد ٠٥٩١ میں سنٹرل انجیئنرنگ اتھارٹی نے ڈیم انویسٹی گیشن سرکل آف پنجاب برائے آبپاشی کے ساتھ مل کر ملک میں تین جگہیں مختص کیں کالاباغ،منگلا اور تربیلا جہاں بڑے آبی ذخائر بنائے جاسکتے ہیںمنگلا دریائے جہلم پر اور تربیلا ڈیم دریائے سندھ پر ہزارہ ڈسٹرکٹ میں بنایا گیاجب کے کالا باغ ڈیم جو کے دریائے سندھ پہ ضلع میانوالی میں بنایا جانا مقصود تھا جو کہ پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا کا مابین علاقہ ہے اس ڈیم سے بیک وقت تین صوبے مستفیض ہو سکتے ہیںاور یہ پاکستان کی تاریخ میں آبی ذخیرے کا سب سے بڑامنصوبہ ہے جس میں آٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جا سکتا ہے جس میں سے چھ ملین ایکڑ فٹ پانی زیر استعمال لایا جا سکتا ہے لیکن اس ڈیم کی تعمیر کے سلسے کو توسیع دے دی گئی۔
٢٧٩١ میں پاکستان انجیئنرنگ کونسل کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی جس میںڈیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ملکی اور غیر ملکی ماہرین کے تجزیات کو پیش کیا گیا جس کو تمام صوبوں اور دیگر پرائیوٹ اداروں کی جانب سے مثبت جواب ملنے کے بعد ٩٧٩١ میں ورلڈ بنک سے مالیاتی مدد کی فراہمی کا عندیہ بھی مل گیا اور ورلڈ بنک نے جون ٠٨٩١ میں اپنی تحقیقاتی ٹیم پاکستان بھیجی جنہوں نے ڈیم سے متعلق تسلی بخش رپورٹ پیش کی ان تمام مثبت اقدامات کے باوجود صوبوں کے آپسی تنازعات اور مفادات کی وجہ سے معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اور عرصہ دراز تک زیر غور رہا لیکن تمام صوبے کسی ایک بات پہ متفق نہ ہو سکے۔
سندھ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے سندھ کا سارا پانی ان کی دسترس سے باہر ہو جائیگا انکی زمینیں بنجر ہو جائینگی اور کے پی کے کے لوگوں کا کہنا ہے کے کالا باغ ڈیم کی جھیل سے نو شہرہ شہر کے کچھ حصوں کو خطرہ ہے جبکہ نوشہرہ کے سابق واپڈا چئیرمین شاہنواز خان کا کہنا ہے کہ اس ڈیم سے نوشہرہ کی ایک انچ زمین کو بھی خطرہ نہیں ہے اور انکی تائید میںانجیئنر شمس الملک کا کہنا ہے کہ کالا باغ منصوبے سے کسی بھی شہر ، علاقہ یہاں تک کے کسی ایک شخص کو بھی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ ڈیم کی تعمیر سے خیبر پختونخوا میں دریا سے بلندی پر واقع آٹھ لاکھ ایکڑرقبہ زیر کاشت آجائیگا صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان میں ڈیمز کی اہمیت کو سمجھتے تھے انھوں نے ٣٠٠٢ میں وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ڈیم کے حوالے سے ٤٠٠٢ کے آخر تک کالا باغ بھاشا ڈیم اور دیگر آبی ذخائر کے بارے میں نہ صرف اتفاق رائے بھی پیدا کرلیں گے بلکہ ان کی تعمیر کے آغاز کرنے کے لئے تقدیم و تاخیر کا فیصلہ بھی کرینگے مگر وہ بھی اپنے سیاسی مسائل میں ایسے اُلجھے کے اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔
Nawaz and Zardari
ہمارے سیاسی اکابرین ڈیمز کی تعمیر کے آغاز کو ناگزیر سمجھتے ہیں اس نا گزیر اہمیت کی نزاکت کو سمجھنے کے لئے دو باتیں بہت پہ غور کرنا بہت ضروری ہے گزشتہ کئی سالوں سے مون سون کی بارشوں کے بعد سیلاب کو چاہنے کے باوجود ہم کنٹرول نہیں کر پا رہے سال میں چھ ماہ ہم پانی کی قلت کا شکار رہتے ہیں اور چھ ماہ پانی میں غوطے لگا رہے ہوتے ہیں اور اس جانی و مالی نقصان کے بعد یہ سارا کارآمد پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے اور ہم اپنا دوہرا نقصان کر بیٹھتے ہیں اس نقصان سے بچنے کا واحد حل کالا باغ ڈیم اور دیگر آبی ذخائر کی تعمیر ہے اس ڈیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ اس دوبڑی نہریں نکلیں گی جسمیں سے ایک نہر خیبرپختونخوا کے اضلاع بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خاں کے وسیع صحرائی علاقوں کو سیراب کرے گی جبکہ دوسری نہر بلوچستان کی طرف نکالی جائیگی جو اسکے وسیع بے آباد علاقوں کو گل و گلزار کر دیگی اور صوبہ سندھ میں سیلاب سے جو ہولناک تباہی ہوتی ہے اُس سے نہ صرف بچت ہو جائیگی بلکہ فصلوں کو بارہ ماہ پانی بھی میسر رہے گا جس سے خصوصی طور پہ خریف کی فصل کی کاشت میں اضافہ ہو گا مزید برآں انڈس ڈیلٹا کی سیم زدہ بیس لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت آجائیگی۔
اور دوسری طرف بھارت کی جارحیت عروج پہ ہے وہ پاکستان پر حملے کرنے میں کسی حال میں پیچھے نہیں ہٹتا آئے دن ہمارے ملک کی سرحدوں پہ قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے ہم اپنے بیشتر بے قصور شہریوں کی جانیں دہشتگردکا ٹیگ لگوا کر گنوابھی چکے ہیں اور بات یہاں پہ ہی ختم نہیں ہوتی دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی دہشتگردی کا واقع پیش آئے ساری دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف ہی اُٹھتی ہیںاور اور بھارت بین الاقوامی سطح پاکستان کو دہشتگردوں کی سرزمین ڈکلئیر کر کے سفارتی لحاظ سے تنہا کر کے ہمارے قومی تشخص کو پامال کرنے کی میں عملی طور پر کوشاں ہے اور اس کے علاوہ دیگر طریقوں سے بھی وطن عزیز کو معاشی طور پہ پسپا کرنے کے دیگر گھنائونے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جسکی تازہ ترین کارئوائی پاکستان کے پانی کو بند کرنے کی صورت میں زیرغور لائی جارہی ہے طاقت اور تعصب کے نشے میں چور بھارتی حکومت اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو پامال کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرے گی اسی لئے ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔
بھارت کشمیر سے آنیوالے دریائوں اور ندی نالوں کا پانی روک کر وہاں سات ڈیم بنا رہا ہے جن میں دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم اور دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم، اوری ڈیم دریائے جہلم پر اور رئیل ہائیڈرولک پلانٹ دریائے چناب پر اختتامی مراحل کو پہنچ چکے ہیں اور افغانستان کو دریائے کابل پر ڈیم بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے تین ارب ڈالر کی پیشکش بھی کر چکا ہے اور یہ منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے اسکی فزیبیلٹی رپورٹ تیار ہے جسکے تحت دریائے کابل پر بارہ ڈیمز تعمیر کئے جائینگے اس منصوبے کا نام سلمیٰ ڈیم رکھا گیا ہے اور ورلڈ بنک ان ڈیمز کی تعمیر کے لئے قریب سات بلین ڈالر فراہم کر رہا ہے یہ ڈیمز ساڑھے چار ملین ایکڑفٹ پانی کو روک لیں گے جو پاکستان کیطرف آتا ہے یعنی بھارتی حکومت اور اسکے حلیف ہر طرف سے ہمارا پانی بند کر کے قائد کے پاکستان کو ریگستان اور صحرا بنانے کے منصوبے پہ عمل پیرا ہیںسابق پارلیمانی سیکرٹری خالد محمود کا کہنا ہے کہ بھارت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مخالفین پرسالانہ٨١ ارب روپے خرچ کرتاہے اور یہ ہی بنیادی وجہ ہے کہ ٠٧٩١ میں دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام بنانے والی قوم گزشتہ ٦٤سالوں سے کوئی ڈیم نہیں بنا سکی ، کیوں؟ کیونکہ بھارت نے کوئی ڈیم بننے ہی نہیں دیا۔
Kalabagh Dam
پاکستان جونہی کوئی منصوبہ شروع کرتا ہے بھارتی لابی پریشر گروپ کو متحرک کو دیتی ہے اور یہ گروپس ڈیم کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتے ہیںاور پاکستان کی دریائے کابل پر منڈا ڈیم کی تعمیرمیں بھی انہی رکاوٹوں کی وجہ سے کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی یہ تمام ترکاروائیاںپاکستان کی معیشت پہ بہت بُرا ثر ڈالیں گی یعنی ہم پاکستانی اپنے ملک کو اقتصادی اور معاشی طور پہ تباہ کرنے کے تو حق میں ہیں لیکن اپنے ذاتی مفادات اور انا کی بناء پر کالا باغ ڈیم کی مسلسل مخالفت کے حق میں ضرور پیش پیش ہیں محب وطن حلقے اس رویے سے مضطرب ہیں میں نہ مانوں کی راہ پہ گامزن یہ سیاستدان عوام میں اپنی ساکھ تباہ کر چکے ہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور کم از کم ستر فیصد لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے اور اسکی ترقی کے لئے آبپاشی کے بہترین نظام کا ہونا بہت ضروری ہے جسکا انحصار آبی ذخائر پر ہے اورہمارے آبی ذخائر کی حالت ناگفتہ بہ ہے ہم حقائق سے نظریں نہیں چرا سکتے اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ہماری معیشت تباہ ہو جائیگی اور ہم بھوک و افلاس کا شکار ہو جائینگے اور یہ ہی ہمارے حریفوں کا مقصد ہے۔
حکمرانوںکو دشمن کی ان تمام انتقامی کاروائیوں کے بعد بین الاقوامی سطح پر اپنی مظلومیت کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ اپنے اندرونی مسائل کو سلجھائیں اور اس منصوبے پر قومی اتحاد پیدا کریں کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر آٹھ ارب ڈالر لاگت آئیگی اور یہ لاگت پانچ سال کی قلیل مدت میں پوری ہو جائے گی یہ پراجیکٹ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جسکی تکمیل سے نہ صرف ہماری زراعت بہتر ہو جائیگی بلکہ ہم اس سے ٠٠٦٣ میگا واٹ تک بجلی حاصل کر سکتے ہیںاوریہ بجلی تھرمل بجلی سے سستی ہو گی اسکی فی یونٹ لاگت ٢.٥ روپے ہو گی اور سالانہ ایک ارب ڈالر کی سستی بجلی حاصل ہو سکے گی
جو ملک کی معیشت کو بلندیوں تک لے جائیگی اور اس ایک پراجیکٹ سے ہزاروں نوکریاں نکلیں گی جس سے ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا اور اسکے علاوہ ہمارے پاس بارشوں اور اُس سے پیدا ہونے والے سیلاب کا پانی سٹور کر سکیں گے اور وہ مصنوعی سیلاب جو بھارت کی طرف سے پیدا کیا جاتا ہے اس سے نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ اس پانی سے سالوں تک استفادہ حاصل کر سکیں گے اگر آج اس صورتحال پہ توجہ نہ دی گئی تو آنیوالے کل میں ہماری تقدیر میں تاریکی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔