تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری علامہ اقبال نے اپنی انقلاب انگیز شاعری میں فکروفن کا جو حسین و جمیل امتزاج پیش کیا ہے اردو ادب کی تاریخ ایسی کوئی اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اقبال کو عام طور پر اردو کی آبرو کے طور پر گردانا جاتا ہے۔ یوں تو اقبال اپنی شاعری کے ذریعے پوری انسانیت سے مخاطب ہیں مگر خصوصی طور پر انہوں نے ملت اسلامیہ کو اپنے خطاب کا مرکز بنایا ہے لیکن فکرو شعر اقبال کے اس بحر پیکراں میں نمایاں طور ہر محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کا اصل مخاطب مسلم نوجوان ہے ۔ اسی واسطے انہوں نے نئی نسل تک اپنا پیغام پہنچا کراسکے اندر احساس خودی بیدار کرنے کی کوشش کی ہے جس سے وہ نا آشنا ہیے۔
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ماضی میں مسلمانوں کی شان و شوکت اور دور حاضر کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی کسمپرسی کا۔ نقشہ کھنچا اور مسلمانوں کے دل میں احیائے اسلام کی تڑپ پیدا کر کے ولولہ تازہ بخشا ۔ انہوں نے براہ راست مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے دعوت فکرو عمل دی ہے ۔
کبھی ایےنوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اک ٹوٹا ہوا تارا
آباؤاجداد کی عظمت بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
تجھے آباء سےاپنے کوئی نسبت ہونہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
اس میں شک نہیں مسلمان قوم کا جذبہ سرد پڑ چکا تھا لیکن ابھی آزادی کی رمق باقی تھی ۔ اسی لئے اقبال پر امید تھے لہذا پکار اٹھے ۔
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
علامہ اقبال کے نزدیک اس ذلت اور پستی کی وجود اسلامی اصولوں سے روگردانی ، مغرب کی اندھا دھند تقلید اور محنت و سخت کوشی سے گریز کے رحجانات ہیں ۔
تیرے صوفے فرنگی ہیں تیرے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
عمارت کیا شکوہ خسر وی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں نہ استخنائے سلیمانی
یہ صورت حال علامہ کے لئے تکلیف دہ ہے چنانچہ انکی تلقین یہ ہے کہ وہ مغرب کی تقلید چھوڑ کر خودداری کے راستے پرگامزن ہوں کیونکہ ان کے نزدیک فکر اور خودی ہی دو کارگر ہتھیار ہیں جن کے ذریعے کارگزار عمل میں باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے مسلم نوجوانوں کی خودی جس قدر مضبوط اور مستعکم ہوگی وہ اسی قدر شجاعت کا مظاہرہ کر سکیں گے ۔ فرماتے ہیں
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا
علامہ کی شاعری میں شاہین کا اشارہ مسلمان نوجوانوں کے لئے استعمال ہوا ہے جب وہ کہتے ہیں ۔
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اور پھر فرمایا
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
چونکہ نوجوان نسل نے حکومت کا نظم ونسق سنبھالنا ہے علامہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل میں ذوق خداداد کے ساتھ ساتھ قوت عمل بھی ہو جس کے لئے وہ دور آخر کے کلام میں اقبال کی بے تابیوں کی سچی تصویر ہے
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
میرا دیدۂ ترکی بے خوابیاں
میرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
میری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں میری آرزوئیں میری
امیدیں میری جستجوئیں میری
میرے قافلے میں لوٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
اقبال بجا طور پر یہ محسوس کرتےتھے کہ نوجوان ہی واحد طبقہ ہے جو ذوق عمل کی دولت سے مالامال ہے اور انہی کے ہاتھوں انقلاب برپا ہو سکتا تھا یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی تمام امیدیں نوجوانوں سے وابستہ کر لی تھیں ۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
بد قسمتی سے ہماری قوم علامہ اقبال کے اتحاد اور یک جہتی کے پیام کو بھلا کر نااتفاقیوں کا شکار ہو چکی ہے اور اتحاد کے اس فلسفے کو بھلا چکی ہے ۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیروں دریا کچھ نہیں
اس وقت جب دنیا بھر کے مسلمان ابتلاء اور آزمائش سے دوچار ہیں اور عالم اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ علامہ کی روح آج بھی بے تابانہ اضطراب میں اس بات کی منتظر ہے کہ نوجوانوں کے عزائم ، انکی ہمتیں ، انکے حوصلے اور ولولے اقبال کے مطلوبہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں ۔ اقبال کی شاعری آج بھی ہمارے ذوق عمل کیلئے ایک سند کا درجہ دکھتی ہے ۔علامہ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ مایوس نہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ہمیں ہونے دیتے ہیں ۔ راہوں کا تعین اور سنگ میل کی نشان دہی کرتے چلے جاتے ہیں اور یہی انکی اعلی ظرفی اور بلند ہمتی ہے
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ایک صدی میں بھی اقبال کا یہ پیغام آکر دلوں میں اتر جائے تو بس یہی تجدید عہد کافی ہے وہ پژ مردہ دلوں کو زندہ تمنا دے رہے ہیں انکے مطابق خزاں بھی بہار ہی کا پیش خیمہ ہے کیونکہ ہر تاریک رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے ۔
یہ نغمہء فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
جب تک اقبال کا کلام ہمارے سامنے ہے ہم اس سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے اور انکا پیغام ہمیں مایوسیو ں کی آتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ترقی کے مناظر پر ہمیشہ گامزن رکھتا رہے گا۔