تحریر: رانا عبدالرؤف خاں اگر آپکی کسی سے دشمنی یا سخت مخالفت ہے اور آپ اپنے مخالف کو جیل بھی بھجوانا چاہتے ہیں اور کوئی وقوعہ بھی ایسا رونما نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں ہے یہاں کچھ ایسے پروفیشنل گروہ موجود ہیں جو وقوعہ بھی خود بنائیں گے، وقوعہ کے کردار بھی پیش کریں گے، پولیس کو معقول پیسوں میں خریدیں گے اور آپکے مخالف پر زنا بالجبر کا ایسا خوفناک پرچہ درج کروائیں گے کہ جب تک متاثرہ لڑکی صلح نہ کرے تب تک آپکا مخالف جیل میں رہے گا۔ زنا بالجبر ایک ناقابل ضمانت جُرم ہے جسکی سزا کم از کم سات سے پچیس سال تک ہے۔
آپ نے صرف اتنا کرنا ہے کہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کی ادائیگی اس پروفیشنل گروہ کو کرنی ہے۔ ہر بے ایمانی والی کام اُتنی ہی ایمانداری سے کیا جاتا ہے۔ جب آپکا سودا طے ہوجائے گا تو آدھے پیسے آپنے ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے دینے ہیں اور آدھے پیسے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ادا کرنے ہیں۔ جونہی آپنے پیشگی ادا کردی تو یہ پروفیشنل گروہ اپنے کام کے لئیے مستعد ہوجائے گا۔
اس گروہ کے پاس پرفیشنل لڑکیاں ہیں آپ نے اپنے مخالف کا فون نمبر، نام اور پتہ اس لڑکی کودینا ہے۔ لڑکی اپنے نمبر سے آپکے مخالف کو کال کرے گی اور چکنی چپڑی باتوں میں پھنسانے کی کوشش کرے گی۔ اس طرح سے چند ایک کالز کا تبادلہ ہوگا۔ اگر تو شکار ایسے ہی قابو میں آجائے تو پیار کا جھانسہ دے کر لڑکی رضا مندی سے زنا کرواتی ہے۔ پھر وُہی لڑکی میڈیکل سرٹیفکیٹ لیتی ہے اور اپنے باپ یا بھائی کی مدعیت میں اپنے شکار پر پرچہ درج کروادیتی ہے اور فرضی وقوعہ بناتی ہے۔
اگر شکار کچھ زیادہ ہی تیز ہو اور فون پر آنے والی ایک لڑکی کی کال کو مثبت جواب نہ دے تو پھر اُس کا دوسرا علاج کیا جاتا ہے۔ دوسرا علاج اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ شکار کے نمبر پر مس کال کی جاتی ہے اور بار بار کی جاتی ہے۔ شکار جھنجلا کر بیک کال کرلیتا ہے تو لڑکی بات کو لمبا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس طرح سے لڑکی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ اُسے شکار کے نمبر سے کال موصول ہوئی ہے۔ جب موبائل ڈیٹا نکالا جاتا ہے تو بدقسمتی سے اُس پر مس کالز نظر نہیں آتی۔ موبائل ڈیٹا بھی موصول اور بھیجے جانے والیایس ایم ایس اور کالز کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ مس کالز اُس ڈیٹا میں نظر ہی نہیں آتی۔ ٹھیک یہی واردات کمالیہ کے ایک معزز ڈاکٹر شوکت کے ساتھ کی گئی ہے۔ ڈاکٹر شوکت سے میرا کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے میں شاید زمانہ طالب علمی میں ایک دفعہ اُنکے پاس گیا تھا اُس کے بعد میں اُن سے آج تک نہیں ملا لیکن جو کچھ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہورہا ہے میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان سطور کو لکھنے پر مجبور ہواہوں۔ ڈاکٹر شوکت پچھلے چالیس سال سے کمالیہ میں بس رہے ہیں۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کمالیہ کے عہدے پر رہے ڈی ڈی ایچ او کے عہدے سے ریٹائیر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی شادی کی لیکن بدقسمتی سے غلط جگہ پر رشتہ کربیٹھے۔ ڈاکٹر صاحب نے معاملہ پہلے معززین کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی، پنچایت کی لیکن وہ لوگ باز نہ آئے جس سے تنگ آکر ڈاکٹر صاحب نے اُن کے خلاف مختلف پرچے درج کروادئیے جس سے سسرال والوں کو کافی دھچکا لگا۔
اب اُن کے پاس کراس ورشن کروانے کا کوئی وقوعہ نہیں تھا۔ انہوں نے ایسے ہی ایک گروہ سے بات کی، ڈیل کی پیسے دئیے اور ڈاکٹر صاحب پر زنا بالجبر کا پرچہ کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ اب ڈاکٹر شوکت صاحب کم ازکم چھ ماہ جیل میں رہیں گے۔ کیونکہ ڈی این اے رپورٹ چھ ماہ بعد آنی ہے۔ ڈی این اے رپورٹ میں جب ڈاکٹر صاحب کی طرف سے زیادتی ثابت نہیں ہوتی تو انہیں باعزت بری کردیا جائے گا اور انکی ضمانت ہوجائے گی۔ لیکن ضمانت تک کے پراسیس کے لئیے ڈاکٹر شوکت صاحب کو چھ ماہ جیل کاٹنا ہوگی ایک ایسے جُرم کی پاداش میں جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہے۔
Kamalia map
اب آتے ہیں کیس کے حقائق کی طرف۔ جو ایف آئی آر ڈاکٹر شوکت پر کٹوائی گئی ہے اُس میں وقوعہ کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ متاثرہ لڑکی نادیہ بی بی مکی مدنی چوک اوکاڑہ کی رہائشی ہے جو بیان کرتی ہے کہ میری خالہ ڈاکٹر شوکت سے علاج کرواتی تھی اور اس نے مجھے بھی علاج کے لئیے اس ہسپتال میں لے آئی۔ 2 ماہ سے علاج کروارہی تھی ڈاکٹر نے مجھے بروز ہفتہ مورخہ 5 جولائی بوقت شام 8 بجے لاری اڈا پہنچنے کو کہا کہ سلیم نامی شخص مجھے اڈا سے لے جائے گا اور ہسپتال لے آئے گا۔ لیکن سلیم نامی شخص مجھے ہسپتال لے جانے کی بجائے نامعلوم جگہ پر لے گیا جہاں مویشی بندھے ہوئے تھے اس احاطہ میں ایک کمرہ بھی موجود تھا میں نے سلیم نامی شخص سے کہا میں نے ہسپتال جانا ہے تم مجھے کہاں لے آئے ہو اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہاں تشریف لے کر آئیں گے کچھ دیر بعد ڈاکٹر شوکت علی موقع پر آگئے اُس نے مجھے چیک کرنے کے بہانے میرے ساتھ زبردستی زنا بالجبر کیا اور مجھے روتے ہوئے چھوڑ کرچلا گیا۔ میں نے سلیم نامی شخص سے منت سماجت کی کہ مجھے گھر جانے دو اور سلیم نامی شخص نے بھی میرے ساتھ زنا بالجبر کیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اسی دوران میں بیہوش ہوگئی۔ ہوش میں آنے پر میں ڈاکٹر شوکت علی کے ہسپتال میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اور موقع پر سلیم نامی شخص اور ایک نامعلوم لڑکی کھڑی تھی اور وہ مجھے دوبارہ اُسی جگہ لے گئے اور جب وہ سوگئے تو تقریباً صبح کے تین چار بجے میں وہاں سے بھاگ کر لاڑی اڈہ پہنچ گئی اور مجھے ڈاکٹر شوکت علی سلیم نامی شخص اور ایک عدد نامعلوم لڑکی مجھے دھمکیاں دیتی رہی کہ اگر اس بارے میں کسی کو بتایا تو آپکو قتل کردیں گے۔(نامعلوم لڑکی ضروریادرکھیں) لاری اڈا پہنچنے پر میری تلاش میں آئے ہوئے محمد شہباز ولد اکرام بٹ سکنہ مکی مدنی چوک گلی نمبر2 اوکاڑہ، محمد منظور ولد حاجی عنائت اللہ محلہ غوثیہ آباد پیر محل مجھے ملے ہیں۔ میں نے تمام کاروائی ان کو بتائی کہ ملزمان شوکت علی ڈاکٹر اور سلیم نامی شخص نے میرے ساتھ زنا بالجبر کیا اور قتل کی دھمکیاں دیں میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ملزمان کو سخت سزا دی جائے۔
مندرجہ بالا ساری تحریر وہ ہے جو ایف آئی آر میں لکھی گئی ہے جو کہ مدعیہ مقدمہ کا موقف ہے۔ اس ایف آئی آر پر میرے کچھ سوالات ہیں جنہیں کوئی بھی عقل مند شخص نظر انداز نہیں کرسکتا۔ سوال نمبر 1: یہ بچی ّ اوکاڑہ شہر جیسے جدید شہر کو چھوڑ کر کمالیہ جیسے پسماندہ ترین علاقے میں ڈاکٹر شوکت کے ایک عام سے کلینک پر چیک کروانے آئی ہے۔ اسے پورے ضلع اوکاڑہ، ضلع ساہیوال میں ایک بھی ڈاکٹر نہ ملا؟ یا یہ ہو کہ ڈاکٹر شوکت بہت ہی قابل اور مشہور ڈاکٹر ہو جس کی شہرت دور دور کے اضلاع میں ہو جسکی وجہ سے ان کے پاس مریضوں کا تانتا بندھا ہوا ہو۔
سوال نمبر 2: یہ لڑکی عرصہ دو ماہ سے ڈاکٹر صاحب سے علاج کروارہی ہے تو ڈاکٹر نے اس دو ماہ میں ایسی قبیح حرکت کیوں نہیں کی؟ حالانکہ ڈاکٹر اپنے کمرے میں اکیلاہوتا ہے۔ سوال نمبر 3: یہ کیسی مریضہ ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی گھر کا مرد تو کیا عورت بھی اُسے دو اضلاع دور کوئی ڈیڑھ سوکلومیٹر دور ڈاکٹر کے پاس چیک کروانے کے لئیے نہیں لے کرجاتا۔ یہ مریضہ خود ہی بس کا ڈنڈا پکڑتی ہے اور کمالیہ لاری اڈا پر پہنچ جاتی ہے۔ کیا یہ جھوٹ کی کہانی نہیں ہے؟
سوال نمبر 4: اگر یہ لڑکی اوکاڑہ سے چلی ہے اور ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ عرصہ دوماہ سے ڈاکٹر شوکت کے ہسپتال میں اُن سے علاج کروارہی ہوں تو اس پاگل کو یہ نہیں پتہ کہ سول ہسپتال کے بالکل سامنے ڈاکٹر شوکت کا کلینک واقع ہے۔ چیچہ وطنی سے آنے والی ہر بس سول ہسپتال کمالیہ، تین نمبر سٹاپ اور تھانہ موڑ پر سواریوں کو اُتارتی ہے۔ یہ مریضہ ہسپتال سٹاپ پر اُترنے کی بجائے لاری اڈا کیا لینے جاتی ہے؟ لڑکی کا یہ کہنا کہ اُسے سلیم نے لاری اڈا بلوایا تھا یہ جھوٹ کی کہانی ہے۔ مریضہ کے ساتھ کسی اٹینڈنٹ کا نہ ہونا بھی جھوٹ کی کہانی ہے۔ کوئی بھی مریض اکیلے سفر نہیں کرتا۔
سوال نمبر 5: لڑکی کا موقف مان لیا کہ سلیم نامی شخص اُسے لاری اڈا سے بہلا پھسلا کر ایک نامعلوم ڈیرے پر لے گیا جہاں پرڈاکٹر شوکت آیا اور اُسے چیک اپ کرنے کے بہانے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ پھر سلیم نے زیادتی کی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ جب ہوش میں آئی تو معجزانہ طور پر وہ ڈاکٹر شوکت کے ہسپتال میں موجود تھی جہاں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر شوکت نے اگر زیادتی کی ہے تو ڈرپ بھی اُسے اُسی ڈیرے پر لگادیتا ایک بے ہوش لڑکی کو ڈیرے سے اُٹھا کر واپس ہسپتال لانا پھر ہسپتال سے واپس اُسی ڈیرے پر لے کرجانا اور رات کو لڑکی کا بھاگنا سب کچھ ایک من گھڑت کہانی ہے۔ اگر ڈاکٹر نے زیادتی ہی کرنی تھی تو اُسی ڈیرے پر لڑکی کو رکھتا۔ کیا ایک بے ہوش لڑکی کو اُٹھا کر اپنے ہسپتال لانا اور ہسپتال سے پھر ڈیرے پر واپس لے جانا ایک شخص کے بس کی بات ہے؟ اتنا حوصلہ تو عادی مجرم بھی نہیں کرتے کیونکہ پکڑے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ ویسے یہ ڈیرہ بھی ایک نامعلوم جگہ پر ہے؟ جس کا لڑکی کو پتہ بھی نہیں ہے؟ نہ ہی اس ڈیرے کا محل وقوع بیان کیا گیا ہے؟ کہ یہ ڈیرہ لاری اڈے سے کتنا دور اور کس سمت میں ہے؟ یہ ساری باتیں ثابت کررہی ہیں کہ یہ جھوٹ کی کہانی ہے۔
سوال نمبر 6: ایف آئی آر میں بار بار ایک نامعلوم لڑکی کا ذکر موجود ہے جو اس لڑکی کو دھمکیاں دیتی ہے کہ اگر اس واقعے کے بارے میں بتایا تو تمہارا انجام بُرا ہوگا۔ مقدمہ میں نامعلوم اس لئیے رکھے جاتے ہیں کہ بعد میں کہا جائے کہ میں نے اُس فلاں نامعلوم کو پہچان لیا ہے اُس کا نام یہ ہے لہذا اُسے بھی گرفتار کریں۔ بڑی چالاکی سے اس ایف آئی آر میں ایک نامعلوم لڑکی کا ذکر بار بار کیا جارہا ہے تاکہ ڈاکٹر شوکت صاحب کی اپنی بیٹی کواس مقدمے میں گرفتار کروایا جائے۔ جی یہ ڈاکٹر صاحب کی وہی بیٹی ہے جس کی شادی غلط جگہ پر ہوگئی اور جن کے خلاف ڈاکٹر شوکت صاحب نے مختلف پرچیے درج کروارکھے ہیں۔ اس طرح سے ڈاکٹر شوکت کو گھیرا جارہا ہے۔
سوال نمبر 7: ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زیادتی سے پہلے بھی لڑکی کنواری نہیں تھی۔ یعنی مدعیہ مقدمہ ایک پیشہ ور لڑکی ہے جو پہلے بھی کسی قحبہ خانے یا طوائف کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔
سوال نمبر 8: آپ جھوٹ کی کہانی ملاحظہ فرمائیں کہ رات کے تین چار بجے ڈیرے سے لڑکی بھاگتی ہے اور وہ ڈیرے سے لاری اڈا کیسے آتی ہے؟ اور تین چار بجے عین اتفاق سے اُسے اُس کا اوکاڑہ والا ایک عزیز اور پیرمحل کے ایک شخص ملتے ہیں جنہیں مل کر لڑکی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کرتی ہے اور وہ لوگ اُسی وقت پولیس کے پاس جاکر ایف آئی آر درج کروادیتے ہیں۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ ملکی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہوگا جہاں سچے گواہ موقع پر مل گئے۔ لڑکی ایک دن پہلے کی چلی ہوئی ہے اور اُس کے رشتہ دار لاری اڈا پر ہی بچی کو تلاش کررہے ہیں جبکہ لڑکی گھر بتا کرآئی ہے کہ وہ ڈاکٹر شوکت کو چیک کروانے اکیلی ہی جارہی ہے۔ بجائے کہ اُس کے رشتہ دار ڈاکٹر شوکت کے کلینک پر آکر اپنی بچی کو دریافت کرتے وہ لاری اڈا ڈھونڈنے چلے گئے۔
سوال نمبر 9: ایف آئی آر میں لڑکی بیان کرتی ہے کہ ڈاکٹر نے مجھے بروز ہفتہ مورخہ 5 جولائی بوقت شام 8 بجے لاری اڈا پہنچنے کو کہا کہ سلیم نامی شخص مجھے اڈا سے لے جائے گا اور ہسپتال لے آئے گا۔ یہ کیسا ڈاکٹر ہے جو خود اور اُس کے ملازمین اتنے فارغ ہیں کہ بیرون شہر سے آنے والے مریضوں کو لاری اڈا سے ہسپتال تک پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی دیتے ہیں؟ کیا کبھی ایسا واقعہ سُنا ہے کہ ڈاکٹر مریض کو لاری اڈا سے اپنے ملازمین کو لینے بھیجے کہ جاؤ مریض لاری اڈا پہنچ چکا ہے اور اُسے کلینک پر لے آؤ۔ جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے اسی لئیے اس کا منہ کالا لکھا گیا ہے۔
یہ سارا پرچہ جھوٹا ہے۔ کمالیہ کی عوام کو اس کے خلاف اُٹھ کر کھڑا ہوجانا چاہییے ڈاکٹر شوکت کا کردار ہمارے سامنے ہے آج تک پچھلے چالیس سال میں ایسا ایک بھی واقع پیش نہیں آیا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب کی ایسی شہرت ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور اُنکی بیٹی کو جان بوجھ کر اس مقدمے میں ملوث کیا جارہا ہے۔ سب سے گھناؤنا کردار کمالیہ کے صحافیوں کا ہے جنہوں نے ڈاکٹر شوکت صاحب کی تصویر لگا کر اُن کی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ دوسری طرف ایک صحافی ایک بچے کے ساتھ زیادتی میں پولیس کی حراست میں ہے اُسکی خبر کو دبا لیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر شوکت پر جھوٹے پرچے کے افسانے کے چرچے کئیے جارہے ہیں کمالیہ کے صحافیوں کا یہ فعل قابل مذمت ہے۔
میں بحثیت ایک شہری کے، ایک قلم کار اس ظلم کے خلاف کھڑا ہوں اور کمالیہ میں بسنے والے وکیلوں، ڈاکٹروں، اساتزہ اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس ظلم کے خلاف ڈاکٹر شوکت صاحب کے حق میں اپنی آواز بُلند کریں۔ میرا ساتھ دیں تاکہ اوکاڑہ سے آنے والے ان بے ضمیر لوگوں سے مقابلہ کیا جائے اور اپنے شہر کے معزز ڈاکٹر شوکت کا تحفظ کیا جائے۔ اگر سول سوسائٹی کے لوگ یا شہر کے لوگ میرا ساتھ دیں تو ہم ڈی پی او سے ملاقات کرکے اس جھوٹے پرچے کو خارج کرواسکتے ہیں۔
میرا قلم مظلوموں کی امانت ہے۔ میں ہر اُس ظلم کے خلاف بولوں گا جو بے گناہوں کے ساتھ کیا جائے گا۔ بقول احمد فراز کے،
میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا