١١نومبر ٢٠١٣، کی یہ پرانی خبر کہ پنجاب کے صوبائی وزیر صحت طاہر خلیل سندھو کو وزارت صحت کی ناقص کارکردی پر اجلاس میں وزیر اعلےٰ شہباز شریف جو پنجاب کے بڑے صوبے کے حاکم اعلےٰ ہیں نے ڈانٹ دیا، طاہر خلیل سندھو نے اپنی توہین محسوس کی اور ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر پڑے پہلی مرتبہ سوچا کہ وہ اقلیت سے ہیں مگر مزید سوچنے کی ذحمت نہیں کی ورنہ تو …، وزیر صاحب کو یاد ہونا چاہئے کہ وہ کس طرح اسمبلی میں پہنچے (اسکی ساری تفصیل ماہنامہ ہمسخن نے اپنی دسمبر کی اشاعت میں بیان کی…) اُن کی حیثیت کیا تھی اور کیا ہے بیشک شک اُسے وزیر بنا دیا، مگر اُن کے نزدیک اِس کی حیثیت ایک کمی سے زیادہ نہیں، کہ اپنے لوگوں کے ووٹوں سے نہیں بلکہ نون لیگ کی بڑی مہربانی سے وہ یہاں محض جی حضوری سے پہنچے یہ توآقاؤں کی زرہ نوازی ہے کہ انہیں صوبائی وزارت کا قلم دان سونپا انہیں ڈانٹ کے بعد بھی اپنے آقاؤں کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا، اگر تو سندھو صاحب کی حمیت جاگی اور صوبائی وزارت سے استعفےٰ دیا اور کہا مجھے آج پتہ چلا کہ میں اقلیت ہوں حاکم اعلےٰ کی ڈانٹ سے وہ سمجھتے ہیں۔
اُن کی سبکی ہوئی تو پھر اُنہیں چاہئے تھا کہ نہ صرف وزارت سے بلکہ جی حضوری کے عوض ملنے والی صوبائی رکنیت سے بھی استعفےٰ دے دیتے تو ایک غیرت مند ہیرو کی طرح منظر پر نمودار ہوتے اور شائد دیگر جی حضوریوں کی بھی رگِ حمیت جا گ جاتی اور سب اسمبلیوں سے باہر آجاتے یقینا جو کام ٦٦ برسوں میں نہیں ہو سکا پل بھر میں ہوتا، یاد رکھیں نامزدئے کبھی عوامی طاقت حاصل نہیں کر سکے اور وہ ہمیشہ اِس طاقت سے محروم رہتے اُن کے ساتھ پھر یہی سلوک ہوتا ہے جو …. اِس کے لئے بہت کچھ کرنا ہے اسمبلیوں سے باہر جے سالک، جوزف فر انسس، پرفیسر سلامت اختر، جوزف فرانسس ایک طویل عرصہ سے انسانی حقوق کے حوالے سے بین القومی شخصیت کے دنیا بھر میں پہچانے جاتے، سیاسی طور پر بھی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اگر چاہتے تو کسی بھی سیاسی جماعت کے حوالے سے اسمبلی میں پہنچتے۔ مگر نہیں یہ لوگ چاہتے ہیں اُنہیں ووٹ سے اپنے نمائندے منتخب کر نے کا آئینی حق دیا جائے کہ وہ اقلیت نہیں پاکستانی تسلیم کئے جائیں ناکہ صرف اقلیت جسکی کوئی وقعت نہیں۔
Quaid e Azam
میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ اقلیت کے کیا معنی ہیں، لوگ چاہتے ہیں انہیں اقلیت نہیں پاکستانی تسلیم کر تے ہوئے قائدآعظم کے فرمودات کے مطابق حقوق ملیں، یاد رکھیں اگر عوام کی طاقت سے اسمبلی میں پہنچتے تو شہباز شریف کی کیا مجال تھی تمہیں ایسے ڈانٹتے جیسے کسی غلام کو اگر قوم (یہاں لفظ قوم کا استعمال محض روائتی ہے کہ میں تو قوم تسلیم نہیں کرتا سے ووٹ لیا ہوتا تو پوری قوم تیری پشت پر ہوتی…نومبر میں یہاں تک لکھا اور پھر پاراچنار چلا گیا دسمبر کا ہمسُخن، جب دیکھا، شمع کا مضمون حضرت موسیٰ چنیدہ خدا کا کامران مائیکل جمورا نون کا کے عنوان سے دیکھا لکھتی ہیں ہمارے خواص بھی خود غرض صرف ذاتی مفاد ات کے لئے پتھروں کو بھی ہیرا بنا کر عوام کے سامنے لاتے ہیں کراچی کے زمہ دار مذہبی اور سیاسی راہنماؤں نے کامران مائیکل سے ایک ملاقات کے دوران انکشاف کیا خداوند نے کامران مائیکل کی صورت میں مسیحی قوم کو موسیٰ دے دیا ہے۔
یاد ہو کہ اِس ملاقات کی تصویر میں جو لوگ نظر آرہے اُن میں کراچی کیتھولک آرچ بشپ بھی نظر آرہے ہیں مجھے یہ دیکھ بہت ہی دکھ ہوأ کہ بہت ہی زمہ دار مذہبی شخصیت ایک مگر اُن کا مطمع نظر یہ تھا کہ کسی فنڈ سے انہیں بھی نوازا جائے گا اِس لئے اُنہوں نے ایک سیاسی بھکاری کو اُس خدا کے چُنیدہ عظیم المرتبہ نبی سے مشابہ کر کے نبی کی توہین کی، کہاں کلیم اللہ بنی اسرائیل کے نبی موسیٰ جب وہ فرعون کے محل میں شہزادوں کی طرح … اُس نے تو اپنی شہزادگی داؤ پر لگادی جب ایک مصری کو ہلاک کیا کہ وہ مصری ایک اسرائیلی کو زد وکوب کر رہا تھا ، مگر یہ صاحبان تو لاہو ر میں قدیم گوشئہ امن کو بحال نہیں کرسکے…،کیونکہ اِن کے بوس ملوث ہیں ،اور اب ٨ کچہری روڈ انارکلی کا مریم بیداغ کے قدیم چرچ کی بیرونی دیوار بھی مافیا نے گرا دی کہ پلازے کی تیاری میں رکاوٹ بن رہی تھی، یہاں بھی یہ نام نہاد ممبران خاموش ہیں کہ خاموشی ہی میں سعادت مندی ہے اب کہاں کلیم خدا، اور کہاں یہ سیاسی بھکاری، جو پنجاب میں رہ گئے تعلیمی ادارے واپس نہیں کرا سکے جن میں قدیم ادارے گورڈن کالج روالپنڈی، مرے کالج سیالکوٹ، رنگ محل مشن سکول، سینٹ فرانسس ہائی سکول انار کلی حضرت موسیٰ نے تو قوم کے لئے اپنی شہزادگی داؤ پر لگا دی مگر یہ تو ایسا کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے ورنہ پھر انہیں میں کبھی بھی اس ملی جلی بھیڑ کو قوم تسلیم کر نے کو تیار نہیں، کیونکہ اِس بھیڑ میں قوم بننے کے وہ اجزا نہیں جو قوم کی تشکیل کے لئے ضروری ہیں۔
اِس بھیڑ کی ذہنی اپروچ گلیاں اور نالیاں بنوانے تک اور جو اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اُنکی ذہنی اپروچ بھی اِس سے آگے نہیں کہ وہ بھی تو اسی بھیڑ کا حصہ ہوتے ہیں، اب زرہ تاریخ پر نظر ڈالیں گزشتہ ٦٦ برسوں میں اِن نام نہاد ممبران نے اسمبلیوں میں پہنچ کر کیا تیر مارا کیا کبھی کسی قانون سازی میں اِن کی آواز آئی، خود پر سے اقلیت کا لیبل نہیں اتروا سکے اور تو کیا آج تک مسیحیوں کی درست مردم شماری نہیں کرا سکے، آج بھی پاکستانی حکومتوں اور سیاست دانوں کے نزدیک مسیحیوں کی آبادی ٢٥،٣٠ لاکھ سے زیادہ نہیں، اور یہ تکنیکی دھاندلی ہے جس میں الیکشن کمیشن بھی شامل ہے، اگر تو درست مردم شماری کرا دی گئی تو اسمبلیوں میں اِن کی تعداد بڑھا نا پڑے ،غور کریں مسلم آبادی تین کروڑ سے ١٨ کروڑ تک پہنچ گئی مگر یہ مسیحی اور اِس دھاندلی کی زمہ داری تنہا اکثریت پر نہیں ڈالی جا سکتی اِ س میں نام نہادممبران قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں اگر اِن میں رتی بھر قومی حمیت ہو جب ان کی آواز سنی نہیں جاتی تو ہاتھ اُٹھا کر صرف ایک دن اسمبلیوں سے باہر آجائیں پھر دیکھیں دنیا میں طوفاں آجائے گا جیسا ٢٢ستمبر ٢٠١٣ کو پشاور میں چرچ پر خود کش حملوں سے دنیا ہل گئی تھی۔
افسوس یہ ہی مشکل ہے شائد کہ جس طرح بنی اسرائیل کے یہواہ نے اُن پررحم کیا اور موسیٰ بھیج دیا کبھی اِن پر بھی رحم کرے گا اور اس غلامی سے نجات کے لئے سچ مچ موسیٰ کو بھیج دے، یہ مٹی کے مادھو عید ولادت المسیح، پر ملک میں صرف ایک دن کی تعطیل بھی نہیں کرا سکے جبکہ قرآن مجید میں سورة آلعمران آیت میں نام اس کا المسیح عیسیٰ بیٹا مریم کا آبرو والا بیچ دنیا کے اور آخرت کے نزدیک کئے گئیوں سے(٤٥)۔ پھر مسیح نے اپنی زبان مبارک سے ۔بیچ گود ماں کی میں عالموں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا سورة مریم آیت اور سلامتی ہو اوپر میرے جس دن پیدا ہوأاور جس دن مروں گا میں اور جس دن اُٹھوں گا میں زند ہو کر (٣٣) حضور المسیح نے اُن تینوں ایام کو سلامتی بخشی، مگر یہاں پاکستان میں آپ کی ولادت کے دن، ایک یوم کی تعطیل نہیں، وہ تو بھلا ہو قائد آعظم کا کہ اُنکا یوم ولادت بھی ٢٥ دسمبر اس طرح مسیحیوں کو بھی قائدآعظم کے یوم ولادت کے حوالے سے ولادت المسیح کی خوشی منانے کی چھٹی مل جاتی ورنہ شائد یہ بھی نہ ہوتا، دنیا بھر کے ڈھائی ارب سے زیادہ لوگ یہ دن منا تے ہیں ماہ دسمبر کو یہ خصوصی اعزاز حاصل ہے کہ بجائے اداسی کے خوشیوں سے بھر پور قرآن مجید میں بیشمار مقامات پر حضور مسیح اور مقدسہ مریم کا ذکر ہے کہ رب تعالےٰ نے اِنہیں جہانوں پر فضیلت دی مگر اُنکے یوم ولادت باسعادت کے موقع پر ایک دن کی سرکاری چھٹی نہیں …. اور اِس مرتبہ یہ بھی انکشاف ہوأ ہے کہ جناب میاں نواز شریف وزیر آعظم پاکستان کا یوم ولادت بھی ٢٥ دسمبر امید ہے خدا یہ انتظام بھی کرے کہ کسی پاکستانی ہستی کا یوم ولادت ٢٦اور کسی کا ٢٤ دسمبر بھی ہو جائے تب ….، البتہ اِن نام نہاد راہنماؤں نے زاتی مفادات حاصل کئے، دیگررشتہ داروں اور …اور کو بھی نوازتے رہے، اب کسی پاگل کی بات مان کرمفت میں ملی ممبری چھوڑ دیں یہ تو اور بھی پاگل پن ہوگا۔