جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) متعدی بیماریوں پر تحقیق اور امراض کے کنٹرول کے جرمن ادارے نے کورونا وائرس سے جنم لینے والے مہلک عارضے کووڈ انیس کی پانچویں لہر کے امکانات سے خبردار کیا ہے۔
برلن میں قائم رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ لوتھر ویلر نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ جرمنی میں اگر مزید شہریوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگائی جاتی تو اس ملک کو کورونا کی پانچویں لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ویلر نے کورونا ضوابط میں سختی کے حوالے سے کہا، ”جب تک سماجی فاصلوں پر عمل یا سماجی رابطوں کو کم سے کم اور ویکسینیشن کی شرح کو ممکنہ حد تک بڑھایا نہیں جاتا تب تک کورونا کی پانچویں لہر سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں کیے جانے والے موجودہ اقدامات واضح طور پر یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ جرمنی کورونا کی پانچویں لہر کی لپیٹ میں آئے گا۔‘‘
جرمنی اس وقت کورونا کی چوتھی لہر سے نبرد آزما ہے۔ رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ نے کہا کہ ان کے ملک کو اس وقت قومی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔ خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے سے بات چیت کرتے ہوئے لوتھر ویلر کا کہنا تھا، ”اس سال موسم سرما میں پورے ملک کی صورتحال کیسی رہتی ہے، اس کا دار و مدار عوام کے رویے پر ہے۔ شہری خود کس طرح حالات کا سامنا کرتے ہیں اس پر ہی آئندہ کی صورتحال کا انحصار ہوگا۔‘‘ ویلر کا مزید کہنا تھا، ”اس صورتحال میں بڑے آسان اور سادہ سے اقدامات کی ضرورت تھی جن کو نظر انداز کیا گیا اور یہ امر باعث شرم ہے۔‘‘
ویلر نے ایک مرتبہ پھر شہریوں سے بڑے اجتماعات اور گھر کے اندر زیادہ لوگوں کو اکھٹا کرنے سے گریز کی اپیل کی۔ لوتھر ویلر کے مطابق سماجی رابطوں پر پابندی جیسی احتیاطی کارروائیوں کی ضرورت دراصل ایسے جرمن صوبوں کو تھی جو کورونا وائرس یا اس وبا سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ اگر ایسے علاقوں می مزید احتیاط سے کام لیا جاتا اور سماجی رابطوں پر پابندی ہوتی تو کورونا کیسز میں اس تیزی سے اضافہ نہ ہوتا جتنا اب روزانہ ہو رہا ہے۔
رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ نے جہاں ایک طرف ویکسینیشن کے عمل میں تیزی پر زور دیا ہے، وہاں وہ یہ بھی کہا کہ صرف ویکسینیشن کافی نہیں ہوگی۔ نئے کورونا کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کے لیے سماجی رابطوں کو محدود کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ”ویکسین وبائی مرض سے نکلنے کا راستہ ہے۔‘‘ ویلر نے تاہم اس امر کی نشاندہی کی کہ یہ حقیقت ہے کہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف بہت زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم 100 فیصد تحفظ فراہم نہیں کرسکتی۔ ویکسین انفیکشن سے اتنا زیادہ تحفظ فراہم نہیں کرتی جتنا کہ شدید بیماری سے۔‘‘
متعدی امراض پر تحقیق کے جرمن ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ 12 سے 59 سال کی عمر کے کم از کم 85 فیصد شہریوں اور 60 سال اور اس سے زیادہ معمر افراد کے 90 فیصد کو ویکسین کا مکمل کورس یعنی دونوں خوراکیں لگ جانی چاہییں۔ لوتھر ویلر کے بیانات جرمنی کی ویکسینیشن کمیٹی Stiko کے چیئر مین تھوماس میرٹنز کے بیانات کی بازگشت معلوم ہوتی ہے جو کہہ چُکے ہیں کہ جرمنی میں کورونا کی پانچویں لہر کے امکانات پیدا ہوچُکے ہیں۔ میرٹنز کے بقول، ”کورونا کی پانچویں لہر کتنی شدید ہوگی اس کا دار ومدار اس امرپر ہوگا کہ کتنے لوگوں کی ویکسینیشن ہوتی ہے اور کتنے شہریوں کو بوسٹر ویکسین لگایا جاتا ہے۔‘‘
جرمنی میں کورونا کی پانچویں لہر کے بارے میں اتنباہی بیانات ایک ایسے وقت پر سامنے آ رہے ہیں جب یورپ کے مختلف شہروں سمیت ایشیائی ملک آسٹریلیا میں کورونا کی وبا کے تیز رفتار پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے تازہ کووڈ پابندیاں عائد کیے جانے کے خلاف ہزاروں مظاہرین نے احتجاج کیا ہے۔ یورپی ملک نیدرلینڈ میں مسلسل دوسری شب مظاہرین اور پولیس کے درمیان چھڑپیں ہوئیں۔ گزشتہ شب یہ جھڑپیں دی ہیگ میں ہوئیں جبکہ اس سے پچھلی رات روٹرڈیم میں پرتشدد واقعات پیش آئے۔ ہفتے کے روز نیدرلینڈ کے مختلف شہروں میں کورونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے کیے گئے جو زیادہ تر پرامن رہے مگر رات کے وقت مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور سائیکلوں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا۔ آسٹریلوی شہر سڈنی میں بھی 10 ہزار سے زائد افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔