کراچی ائیرپورٹ پر حملوں میں تمام کے تمام ازبک باشندے تھے۔اس کی ذمہ داری اگرچہ ازبک اسلامک موومنٹ نے قبول کی تھی’ تاہم حملہ آوروں سے بھارتی اسلحہ وانجکشنز برآمد ہونے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان کو استعمال کرنے والااصل سرغنہ بھارت ہے۔
پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے یوں تواب تک بہت سے شواہد سامنے آچکے ہیں لیکن ہم کچھ اپنے نہیں بلکہ مغربی ذرائع کی تحقیق شدہ رپورٹوں سے ثابت کرتے ہیں کہ بھارت کس طرح ایک عرصے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت افغانستان’ بلوچستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ کے معصوم نوجوانوں کو گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف بڑے منظم طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں ہم پہلے کچھ ماضی قریب میں جاتے ہیں۔اگست 2008ء میں افغانستان میں ایک نئی انٹیلی جنس ایجنسی کاقیام عمل میں لایاگیا۔ بظاہر اس کامقصد یہ بتایاگیا کہ اس ایجنسی کاقیام افغانستان کے اندراستحکام کے لیے عمل میں لایاگیاہے لیکن اس کے مقاصد اتنے خفیہ رکھے گئے کہ امریکہ تک کو اس کاپورا علم نہ تھا۔ امریکہ چونکہ خود افغانستان میں شکست کے بعدکسی طرح محفوظ طریقے سے افغانستان سے نکلناچاہتاتھا’ اس لیے اسے بھی ایسی ایجنسیوں کے کام کی ضرورت تھی جوامریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میںا ستحکام کوقائم رکھیں۔اس کانام Research and Analysis Milli of Afghanistanرکھاگیا یعنی افغانستان کا شعبۂ تحقیق وتجزیہ۔ بظاہر یہ ایسانام ہے جس پر فوری طورپر کوئی چوکنا بھی نہیں ہوسکتا لیکن اس نام کے مخفف پر غور کیاجائے تو یہ راما(Rama) بنتاہے ۔یادرہے کہ رام ہندؤوں کے بھگوان کانام ہے اوریہ بھی یادرہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی”را”(Raw) کا نام بھی اس سے ملتاجلتاہے۔ یعنی Research and Analysis wing ایک امریکی دانشور مائیک جے وولر(Milke J. Woller) نے واشنگٹن پوسٹ (22اکتوبر 2009ء )میں ایک مضمونRole of Raw & Rama in Afghan Guerrilla war (افغان گوریلا جنگ میں”را”اور”راما” کاکردار) کے عنوان سے لکھا۔
اس نے دعویٰ کیا کہ ”را”اور”راما” ایک ہی ایجنسی کے دونام ہیں۔مائیک وولر نے امریکی انتظامیہ سے سوال کیا کہ آخرامریکہ کب تک بھارت کے سہارے افغانستان میں اپنارول ادا کرسکے گا جبکہ بھارت کی افغانستان کے ساتھ کوئی متصل سرحد نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھارت سالانہ ایک ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کررہاہے۔”راما” کے تمام اخراجات کابل میں بھارتی سفارتخانہ اداکرتاہے۔امریکہ اوراس کے اتحادی افغانستان کے صرف چاربڑے شہروں تک محدود ہیں جبکہ بھارتی شمالی اسد آباد اورجلال آباد میں اورقندھار کے جنوب میں پاکستانی سرحدوں کے قریب موجودہیں۔اس کے علاوہ شمالی مغربی شہروں مزار شریف’ شبرغان’ کوہ شیلہ جدید’بامیان’ہرات’خائیک’ لشکرگاہ اورحسن خیلی میں بھی موجودہیں۔یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ راما کاہیڈکوارٹر احمدشاہ مسعود کے مرکز جبل السراج میں ہے جبکہ اس کے تربیتی کیمپ نورستان کے قریب بعض دشوار گزار علاقوں میں واقع ہیں۔تربیت دینے والوں میں روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی اور افغان خفیہ ایجنسی ”خاد” کے ریٹائرڈ اہلکار شامل ہیں۔ان کیمپوں میں 45دنوں سے 18ماہ تک کے کورس کرائے جاتے ہیں۔ان کیمپوں میں خودکش دھماکوں اور گوریلا حملوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
بین الاقوامی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق”راما” پاکستانیISI کومفلوج کرنے اورپاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔انہیں اس سلسلے میں اسرائیلی موساد کابھی پورا تعاون حاصل ہے۔اس سلسلے میں اطالوی نیوز ایجنسی کے مشہور اخبار Coreiere Della Sera(انگلش ایڈیشن )اور Al Awen Ire میں 29,28اگست 2009ء کو چھپنے والی خبریں اور تجزیہ بڑے اہم اورانکشاف انگیزہیں۔ان خبروں کے مطابق نیٹوکے تحت کام کرنے والے اطالوی فوجیوں کے دستوں نے جوافغانستان کے مشہور رنگ روڈ پر تعینات تھے’ایک بارایک مشکوک لینڈروور Land Roverجیپ کو روکا جوافغان سرحدی صوبہ قندوز سے بغلان جارہی تھی۔جب اس جیپ کی تلاشی لی گئی تو اس میں سے راکٹ لانچرز’رائفلیں اور گولیوں کے بڑی تعداد میں راؤنڈز برآمد ہوئے۔
Tajikistan
اطالوی فورسز نے جیپ میں بیٹھے پانچ افراد گرفتار کرلیے اور انہیں وہ اپنی چیک پوسٹ پر لے گئے۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ ان میں سے دو کا تعلق تاجکستان سے ‘ 2کا ازبکستان سے اورایک مقامی افغانی تھا۔صرف افغانی کے پاس شناختی دستاویزات تھیں۔ ان دستاویزات کے مطابق وہ کابل میں بھارتی تعمیراتی کمپنی میں شفٹ سپروائزرکے طورپرکام کررہاتھا۔مزیدتحقیق پر معلوم ہوا کہ دوسرے چاروں افراد نے گوریلا ٹریننگ فارخورFar Khore ائیرپورٹ سے حاصل کی جوکہ تاجکستان کے دارالحکومت سے 140کلومیٹردور اورازبکستان کی سرحد سے دوکلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔یہ چاروں اپنے افغان گائیڈکے ساتھ کابل جارہے تھے۔ کابل میں دوہفتے قیام کے بعد ان کی اگلی منزل پاکستان کے قبائلی علاقے تھے۔ اس وقت تک اطالوی فوج کو علم نہیں تھاکہ فارخورائیربیس کو بھارت نے تاجکستان سے لیزپر حاصل کر لیا تھا۔ اطالوی فوجیوں نے سوچاکہ تاجک حکومت گیم کررہی ہے اور اس طرح روس افغانستان میں اپنی شکست کابدلہ پاکستان سے لے رہا ہے۔تاہم چندگھنٹوں بعدہی افغان وزارت داخلہ کے چندآفیسرز کچھ بھارتیوں کے ہمراہ چیک پوسٹ پر آئے اور ان پانچوں کو اسلحہ سمیت اپنے ساتھ لے گئے۔ جب یہ واقعہ رونماہواتواس وقت اتفاق سے روم کے آسٹروڈی اگنیلی (Austro D. Agnelli) سے وابستہ ایک اطالوعی صحافی اطالوی چیک پوسٹ پر بطورِ مہمان موجودتھا۔ وہ اپنے ایک کزن سے ملنے کے لیے خصوصی طورپر اس چیک پوسٹ پرآیاہواتھا۔ جب اس نے بطورِ صحافی اس معاملے کی مزید تحقیق کی تو اسے حیران کن معلومات ملیں۔ ان معلومات کے مطابق بھارت نے تاجکستان میں ایک ائیربیس کے قریب ایک تربیتی کیمپ قائم کیا ہواہے اور یہاں دہشت گردوں کو تربیت دینے کا کام2005ء سے جاری ہے۔ طریقہ کار کے مطابق فارخور ائیربیس پرکام کرنے والے بھارتی خفیہ سروسز کے اہلکار پرکشش معاوضے دے کرتاجکستان اورازبکستان کے پسماندہ علاقوں کے نوعمراور بے روزگار نوجوانوں کو اس کام کے لیے بھرتی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خاندانوں کوبھی معقول رقم فراہم کی جاتی ہے۔نوجوانوں کو اچھی خوراک’لباس اورکیمپ میں رہائش وغیرہ کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ تربیت کے دوران بھارت سے لائے گئے مسلمان مبلغین دو سے تین ہفتوں تک ان کی ”مذہبی” تربیت کرتے ہیں۔مسلمانوں کے مسائل خاص طورپر زیر بحث لائے جاتے ہیں۔انہیں یقین دلایاجاتاہے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی وجہ پاکستان ہے۔ مسلمان مولوی ازبک اور تاجک زبان میں ان کی برین واشنگ کرتے ہیں۔ اس کے بعدان سے پوچھاجاتاہے کہ کیاوہ معمول کاکام کرناچاہتے ہیں یااسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے پاکستان کے خلاف لڑکرجنت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہونے پران کی تنخواہ ڈبل کردی جاتی ہے۔
اطالوی صحافی کے مطابق بہت کم ہی ازبک یا تاجک ہوتے ہیں جو پاکستان کے خلاف لڑنا نہیں چاہتے۔ اکثر ہی پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔اس کے بعددوسرامرحلہ شروع ہوتاہے۔ جو نوجوان پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے’ ان کی مزیدبرین واشنگ کے لیے انہیں بھارت بھیجا جاتا ہے۔باقی نوجوانوں کو عسکری تربیت دی جاتی ہے۔ یہ عمل 4-6 مہینوں تک جاری رہتاہے۔ انہیں آٹو میٹک ہتھیاروں کے استعمال ‘بارود کی تیاری اور ان کی تنصیب اور گوریلاجنگ کاطریقہ سکھایاجاتاہے۔ اس تربیت کے دوران انہیں اپنے خاندان والوں سے صرف اس شرط پر ملنے دیاجاتا ہے کہ وہ اپنے کام کے بارے کسی بات کاافشاء نہیں کریں گے’انہیں بھارتی سول سوسائٹی سے بھی ملایا جاتاہے اورانہیں یقین دلایاجاتاہے کہ یہ زمین پرجنت ہے جہاں مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے لوگ پرامن طورپر رہ رہے ہیں لیکن پاکستان اس امن کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ فارخورائیربیس پرواقع بھارتی ٹریننگ کیمپ کا ایک اوراہم پہلویہ ہے کہ بھارتی عورتیں یہاں مسلسل آتی رہتی ہیں۔ٹریننگ کرنے والے نوجوانوں کی ان عورتوں سے شادیاں کردی جاتی ہیں۔انہیں یقین دلایاجاتاہے کہ اگر وہ پاکستان میں مارے گئے تویہ عورتیں جنت میں ان کا انتظار کرتے ہوئے ملیں گی۔ مشن شروع کرنے سے پہلے ان کی بھارت یاتراکرائی جاتی ہے۔ یہاں ان کی خوشحال مسلم خاندانوں سے ملاقات کرائی جاتی ہے جو پاکستان اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ بھارت سے واپسی پرانہیں کابل سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھیج دیاجاتاہے۔ اطالوی صحافی کی تحقیق کے مطابق تاجکوں اور ازبکوں کے ساتھ ساتھ فاٹا اوربلوچستان سے بھی نوجوانوں کولاکر ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس طریقے سے بھارت دوہرافائدہ اٹھاتاہے ۔وہ دہشت گردی کے لیے افرادی قوت پاکستان سے ہی حاصل کرتاہے اور دوسرے نمبرپر یہ کہ تاجک اورازبک لڑائی میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتے۔
India
قارئین کرام! جب بھارت نے تاجکستان کے دور درازائیربیس تک رسائی حاصل کرلی’ دفاعی ماہرین نے اسی وقت یہ خیال ظاہرکیا کہ یہ بھارت کی وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے لیے ایک ملٹری بیس کاکردار ادا کرے گا۔جب تاجک اخبارات نے یہ اندرونی خبردی تو تاجک حکومت نے دعویٰ کیاکہ بھارت ائیربیس کی صرف مرمت کررہاہے اور اسے ملٹری بیس بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔بھارتی یہ کہہ مکرنی کرتے ہیں کہ وہ دسمبر 1999ء کے اُس سانحہ سے دوبارہ بچنے کے لیے ایساکچھ کررہے ہیں جب بھارتی جہازC-814 قندھار کی طرف ہائی جیک کیاگیاتھا۔ بھارتیوں کے نزدیک یہاں ملٹری بیس ہونااس لیے بھی ضروری ہے تاکہ اگرکل کلاں کابل میں ان کی مخالف حکومت برسرِاقتدار آجائے تو بھارتی مفادات کاتحفظ کیاجا سکے۔ فارخور ائیربیس پراگرچہ 14عددمگ 29کے دوسکوارڈن اورMI-17کاایک سکواڈرن موجودہے مگر حقیقت میں یہ ائیربیس دہشت گردوں کی ٹریننگ کے لیے استعمال ہورہاہے۔ ان کیمپوں سے ٹریننگ کے بعد دہشت گردوں کو افغانستان کے راستے پاکستان داخل کیا جاتا ہے۔
مغربی میڈیابھی پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے سے پوری طرح آگاہ ہے لیکن افسوس پاکستانی حکومت پر ہے کہ مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح شواہد اورثبوتوں کے باوجود نہ بھارت کے سامنے یہ ثبوت رکھے جاتے ہیں’ نہ باقی دنیا کے سامنے ۔پرویزمشرف سے لے کرگیلانی’زرداری اور نوازشریف تک ہماراہرحکمران بھارت کو اس لیے ننگا کرنے اور اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے گریزاں رہتاہے کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ جو دوستی اور پیارمحبت کاسفر شروع کیاہے’ یہ سلسلہ کہیں سبوتاژ نہ ہوجائے اور وہ بھارت کوپسندیدہ ترین قرار دینے کے لیے بڑی جان جوکھم سے جوماحول بنارہے ہیں تاکہ بھارت کی بڑی منڈی کے ساتھ تجارت اور دوستی بڑھاکر وہ ملک کو معاشی طورپر خوشحال بناسکیں’تویہ سارا خواب کہیں دھرا نہ رہ جائے۔ حالانکہ ہندوبنئے سے کسی فائدہ کی امیدرکھنا سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ وہ اگر دوستی کی بات کرے گا بھی سہی تو صرف اپنا مفاد حاصل کرنے کی حدتک’ مودی جیسے شاطر نے نواز شریف سے پہلے اپنے چہرے کی کالک دھلوائی اور پھر دوستی کی آڑ میں یہ بدنام ترین اپنے لیے نوازشریف سے ”پسندیدہ ترین” کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرے گا اورپھراگلے مرحلے پر اس پسندیدہ ترین کے تقاضوں کوپوراکرنے کامطالبہ کرتے ہوئے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک پاکستان سے محفوظ راستے حاصل کرے گا جہاں اس کے ٹرک تجارتی سامان کی آڑ میں افغانستان ‘ازبکستان اور تاجکستان میں اپنے دہشت گردی کے کیمپوں کے لیے اسلحہ سپلائی کریں گے اوراگرپاکستان کے راستے میں ان بھارتی ٹرکوں پر کبھی کوئی حملہ ہوا توپھربھارت اپنے ٹرکوں کی حفاظت کے لیے اپنی فوجی چوکیاں اورفوجی کیمپ تک بنانے کا مطالبہ کرے گا اوریوں وہ پاکستان کو اندر اورباہر سے ہرطرف سے گھیر کر دہشت گردی کی گہری دلدل میں ڈبودے گا۔اس لیے حکومتی کارپردازان سے ہماری دردمندانہ گزارش ہے کہ اس وقت سے پہلے پہلے آنکھیں کھول لیں۔ ویسے ایسے حالات تواب بھی کافی حدتک سامنے آچکے ہیں ۔آخریہ سلسلہ کب تک چلتارہے گا’کب تک ہم سانپ کو دودھ پلاتے رہیں گے۔یہ کیساتماشہ ہے کہ ہم تو دوستی کے ہاتھ بڑھاتے رہیں اور بھارت ہمارے ہاتھ کاٹتارہے۔کیاہمیں اس وقت ہوش آئے گا جب وہ ہمارے پاؤں کاٹنے تک بھی پہنچ جائے گا۔
Nawaz Sharif
کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے فوری بعد اگرچہ نواز شریف نے اچھا کیا کہ فوری طور پر تاجکستان کا دورہ کیا اور تاجکستان حکومت سے دہشت گردی کے خلاف کئی معاہدے کیے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے تاجکستان حکومت سے فارخورائیربیس پرپاکستان کے خلاف دہشت گردی کی ٹریننگ دینے والے بھارتی کیمپ کے بارے انٹیلی جنس شیئرنگ بھی کی لیکن نوازشریف صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ دہشت گردی کے اصل منبع بھارت کو انتباہ نہیں کریں گے’اس وقت تک باقی سب اقدامات بے معنی ہی رہیں گے۔اس لیے کہ یہ بات پوری دنیامیں تسلیم شدہ ہے کہ چورنہیں’چورکی ماں کو پکڑو۔