کراچی (جیوڈیسک) کراچی ائرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے پر عالمی میڈیا نے لکھا کہ اس نے سیکورٹی صورت حال پر سنگین سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کی وزیر اعظم کی کوششوں کوشدید دھچکا لگا ہے۔ آئی ایس آئی ان حملوں کو کیوں روک نہ پائی۔ عسکریت پسند طیاروں کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے، حملے کے بعد فوجی اڈوں، جوہری تنصیبات اور سرکاری دفاتر کی سیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا۔
برطانوی اخبار’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے لکھا کہ کراچی ائر پورٹ حملہ وزیر اعظم کی ان کوششوں کے لئے شدید دھچکا ہے جو ایک دہائی سے جاری عسکریت پسندوں سے جنگ کے خاتمے کے لئے طالبان سے مذاکرات کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ سابق ریٹائرڈ بریگیڈئر فاروق حمید کا کہنا ہے کہ اب طالبان اور حکومت کے درمیان امن بات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی جب تک طالبان جنگ بندی نہیں کرتے۔ ایسے حملے اس بات کو تقویت دیں گے کہ طالبان مذاکرات میں مخلص نہیں۔ مغربی سفارتکاروں نے خبردار کیا کہ یہ واقعہ نواز شریف کی حکومت اور ملکی داخلی سلامتی کے نیٹ ورک کو بہتر کرنے کی کوشش کے بارے تشویش میں اضافہ کرے گا۔ جب کراچی ائر پورٹ جیسے سخت سیکورٹی والی جگہ پراس طرح کا حملہ ہو سکتا ہے تو سیکورٹی کی کوتاہی پر سوال اٹھتے ہیں۔
ائر پورٹ پر حملے کی طالبان کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کا مقصد حکومت کو پیغام بھیجنا تھا کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ برطانوی اخبار’’گارجین لکھتا ہے کہ معاشی حب کے ائیر پورٹ پر حملہ کئی سالوں بعد اتنا مہلک واقعہ دیکھنے میں آیا، طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حکومتی کوششوں کی پالیسی پر تنقید تیز ہونے کا امکان ہے۔ امریکی اخبار’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ لکھتا ہے کہ یہ حملہ پاکستانی ہوائی اڈے کی سیکورٹی کی خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔ ائر پورٹ کے محاصرے نے دہشتگردی کے مسلسل خطرے کے دوران اہم ٹرانزٹ مراکز کی حفاظت کیلئے ملکی اہلیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب وزیر اعظم نواز شریف اور فوج طالبان کے خلاف ایک بڑی کارروائی کے بارے میں سوچ رہے تھے جنہوں نے ایک خونی بغاوت مچا رکھی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ حملے کے 90 منٹ کے بعد سیکڑوں آرمی کمانڈوز موقع پر پہنچ گئے اور عسکریت پسندوں کا مقابلہ کیا۔ایک پاکستانی انٹیلی جنس عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عسکریت پسند طیارے کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کامیاب نہ ہو پائے۔ حالیہ دنوں میں سیکورٹی حکام نے ایک وارننگ جاری کی تھی کہ وزیرستان میں فوجی آپریشن کے ردعمل میں کراچی میں ایک بڑا دہشتگردی کا حملہ ہونے کا امکان ہے۔ برطانوی اخبار’’انڈی پنڈینٹ ‘‘ نے لکھا کہ طالبان طیارے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش میں تھے عسکریت پسندگروپ نے کہا کہ یہ حملہ امریکی ڈرون حملے میں ان کے لیڈر کی ہلاکت کا بدلہ ہے۔
ائیر پورٹ پر حملے اور طالبان کی طرف سے اس کی ذمہ داری کے قبول کرنے کے عمل نے نواز شریف کے سامنے کئی چیلنج کھڑے کردیئے ہیں۔ امریکی اخبار’’نیویارک ٹائمز‘‘ لکھتا ہے کہ 2011 کے مہران بیس پر دہشت گردوں کے حملہ کے بعد یہ شدید حملہ ہے، اگرچہ ایلیٹ کمانڈوز نے فوراً پہنچ کر ان کا مقابلہ کیا تاہم کئی پاکستانیوں نے اس پر دکھ کا اظہار کیا کہ دہشت گرد آسانی سے اپنے اہداف پر پہنچ سکتے ہیں اور سوالات اٹھائے کہ ملک کی طاقتور ایجنسی آئی ایس آئی اس حملے کو کیوں نہ روک پائی۔ اخبار نے طیارے پر سوار ایک مسافر کا ٹویٹ لکھا کہ اس کے طیارے کا کنٹرول آرمی کے کمانڈوز نے سنبھال لیا ہے۔ کچھ لمحوں بعد اس نے لکھا کہ باہر ایک زور دار دھماکا ہوا اور مسافروں میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں حکومت کے ساتھ بات چیت پر طالبان دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔کراچی طویل عرصے سے عسکریت پسند جنگ جو ،فنانشرز اور سلیپرز سیلز کا گڑھ بن چکا ہے۔
کئی عکسریت پسند قبائلی علاقوں سے یہاں شفٹ ہوئے ہیں۔ امریکی اخبار’’ٹیلی گرافــ‘‘ نے لکھا کہ کراچی حملے کے بعد پاکستان نے جوہری تنصیبات، ملٹری بیسز اور سرکاری دفاتر کی سیکورٹی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اخبار نے وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری کے حوالے سے لکھا کہ دہشت گرد 20 طیاروں کو تباہ اور 200 سے زائدافراد کو ہلاک کرنا چاہتے تھے۔اخباری نے ایوی ایشن حکام کے حوالے سے لکھا کہ حملہ آور ازبک اور چیچن تھے۔ کئی ذرائع یہ الزام لگاتے ہیں کہ حکومت طالبان کے ساتھ جنگ بندی کو ان کے اڈوں پر حملے شروع کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔