تحریر : حفیظ خٹک قومی اسمبلی کی نشست این اے 245اور سندھ اسمبلی کی پی ایس 115پر اطمینان و سکون کے ساتھ توقع کے مطابق نتائج کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے۔ دونوں نشستوں پر متحدہ قومی موومنٹ کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ۔ قومی اسمبلی کی نشست پر متحدہ کے امیدوار کمال ملک نے 39800سے زائد اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر فیصل رفیق نے 11700ووٹ حاصل کئے۔دونوں نشستوں پر عوام کی جانب سے اپنی رائے کے اظہار کیلئے ووٹ ڈالنے کا تناسب کم رہا ۔ قومی اسمبلی کی نشست کیلئے درج ووٹوں کی تعداد 4,90,000جبکہ صوبائی اسمبلی کیلئے 1,62,000ہے ۔قومی اسمبلی کی نشست پر ووٹ ڈالنے کیلئے 227جبکہ صوبائی اسمبلی کیلئے 83اسٹیشن قائم کئے گئے۔
اس لحاظ سے ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 12فیصدسے بھی کم رہا ۔ تحریک انصاف کے امیدوار کی انتخاب رائے کے روز کی رات میں یکدم اپنی جماعت کو چھوڑ کر متحدہ میں شامل ہونے اور نشست سے دست بردار ہونے کے سبب قومی اسمبلی کی نشست پر عوام کی توجہ برائے نام رہی۔ امجد اللہ خان کی کانفرس کے بعد تحریک انصاف کے ووٹرز اور کارکنوں سمیت رہنماؤں کو بھی خیرت کے ساتھ مایوسی ہوئی۔ 245کی نشست پر سندھ کی حکمراں سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہد حسین نے 3ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے ۔ پیپلز پارٹی کیلئے کراچی میں قومی یا صوبائی اسمبلی میں کامیابی کا حصول اک خواب کی مانند رہا ہے۔ تاہم یہ امر قابل تعریف ہے کہ وہ مقابلے کیلئے اپنے امیدوار کو میدان میں ضرور اتارے ہیں۔ قومی اسمبلی کی اس نشست پر تیسرے امیدوار پاسبان پاکستان کے رہنما عبد الحاکم قائد تھے جنہوں نے بھر پور انداز میں اپنی مہم چلائی۔ پاسبان نے اس نشست پر سب سے پہلے انتحابی کیمپ کا آغاز کیا اور اس کو رواں رکھنے کیلئے پاسبان کے قائد الطاف شکور نے نہ صرف متعدد ریلیوں کی خود قیادت کی بلکہ مہم میں عوام کی توجہ حاصل کرنے اور نئی قیادت لانے کیلئے محنت سے کام لیا۔ پاسبان کے قائد اور امیدوار نے نتائج کو تسلیم کیا اورملنے والے ووٹوں پر عوام کا شکریہ بھی ادا کیا۔
MQM
صوبائی اسمبلی کی نشست پر متحدہ کا اصل مقابلہ مہاجر قومی موومنٹ سے تھا ۔ متحدہ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اپنی کامیابی کا یقین تھا لیکن مہاجر قومی موومنٹ کی جانب سے میدان میں آنا اور انتخابی مہم کھلے انداز میں چلانے کا شایدیہ اندازان کیلئے غیر متوقع تھا ۔ اس حلقے پر ووٹوں کے کم اندراج کی ایک وجہ یہاں پائے جانے حالات کی خرابی کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی طرح کی صورتحال سے مقابلہ کرنے اور اسے ختم کرکے امن و امان قائم رکھنے کی تمام تر تیاریاں کر رکھی تھیں۔ اس نشست پر باوجود بھر پور تناؤ اور عوام کیلئے ذہنی پریشانیوں کے کوئی غیر معمولی و غیر قانونی واقعے کا نہ ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جیت کے ضمرے میں آتا ہے۔
مجموعی طور پر صورتحال کا خلاصہ یہی ہے کہ شہر قائد کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی تاریخ کو برقرار رکھا اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اس ضمنی انتخابات میں جیت حاصل کی۔ ایم کیو ایم کا معاملہ تنظیمی سطح پر یہاں تک پہنچا ہوا ہے کہ ووٹ ڈالنے والوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں۔ ووٹ صرف انتخابی نشان پر مہر لگا نا انہیں مقصود ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی شہر قائد میں جاری سیاسی کارکردگی سمیت دیگر جماعتوں کا لائحہ عمل ، موجودہ انتخابی نشستوں پر آنے ولے ووٹوں کے اندراج کے
اوسط اور اس سے قبل ایم کیو ایم کے مرکز کی نشست پر عوامی توجہ کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی بھر پور کارکردگی کے بعد اب ایم کیو ایم کے ذمہ داران اپنی سابقہ روش میں تبدیلی کے متعلق ضرور سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ قومی اسمبلی کی اس نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار نے جس طرح کی سیاست کا مظاہر ہ کیا عوام کو نتائج سے زیادہ اس طرز عمل پر تعجب کے ساتھ حیرت ہوئی۔ انتخابی عمل والے روز ہی تحریک انصاف کی جانب سے ان کے امیدوار کے اس طرز پران کی انفرادی و اجتماعی رویئے سامنے آگئے۔
PPP
اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی امجد اللہ خان کے متعلق بیان دے کر مجموعی صورتحال کواور بھی دلچسپ بنادیا۔ امجد اللہ خان جن کے ذاتی حالات سے ان کی جماعت کے قائدین سمیت کم ہی افراد کو علم ہوگا ، انہوں نے بقول پیپلز پارٹی رہنما نجمی عالم کے ، ان سے رابطہ کیا اور ان سے پیسوں کا مطالبہ کیا جس پر نجمی عالم نے انکار کیا ۔ نجمی عالم کے انکار سے قبل امجد اللہ خان تحریک انصاف کے صوبائی رکن خرم شیر زمان سے رابطہ کرکے پیسوں کا مطالبہ کیا ،ذاتی اخراجات کے لئے مانگے جانے والے پیسے جب نہ ملے تو انہوں نے پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا وہاں بھی ناکامی ہوئی اس کے بعد امجد نے براہ راست ایم کیو ایم سے رابطہ کیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب عوام کے سامنے ہے۔ اس عمل سے تحریک انصاف ، مہاجر قومی موومنٹ ، پیپلز پارٹی اور پاسبان سمیت ملک کی دیگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہماری ملک کی طرز سیاست اس طرح کی بھی ہوسکتی ہے یہ بات ، یہ نقطہ قابل اعتراض سہی تاہم سیاسی و مذہبی رہنما اپنی جماعتوں کی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لئے اک نئے لائحہ عمل پر عمل پیرا ہوں گے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایسے واقعات کم رونما ہوں گے۔
سوشل میڈیا پر اس سیاسی عمل کا تجزیہ دوسرے انداز میں سامنے آیا ہے۔ امجد اللہ خان کے اس عمل کو کم ہی لوگوں نے پسند کیا ہے ، مجموعی طور پر تو سبھی نے اس عمل پر اپنے شدید غم و غصے اظہار کیا ہے۔تاہم ذرائع ابلاغ پر یا اس سے باہر عوام کے اندر اور سیاسی حلقوں میں اس واقعے کی اصل وجوہات کی جانب توجہ نہیں دی گئی ۔ اس نقطہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ تحقیق کے بعد جو صورتحال سامنے آئی وہ ہر ایک کے اپنے تبصرے و تائثر کیلئے زیر خدمت ہے۔
امجد اللہ خان ، تحریک انصاف کا ایک سرگرم رکن تھا ۔ ان کے والد نے کاروباری دوست کے ساتھ ایک پنسل بنانے والی کمپنی کا آغاز کیا اور محنت و لگن کے بعد اسے کامیاب بنایا۔ تاہم امجد کے باعث وہ کمپنی اس عروج کو ختم کر گئی ۔ اس مد میں اور اس کے بعد ایک اور کمپنی کے آغاز و اختتام کے باعث انہیں بینکوں سے بڑا قرض لینا پڑا ۔ اس کے ساتھ ڈیفنس کے جس گھر میں وہ مقیم ہیں وہ بھی بینکوں کے قرض کے باعث گروی ہے۔ امجد اللہ خان کی پہلی شادی جس خاتون سے کی گئی وہ ان کی اپنی مرضی کی شادی تھی ۔ امجد صاحب اسے تین بچوں کے بعد چھوڑ چکے ہیں ۔ انہوں نے اگھر والوں کی مرضی سے ایک اور شاد ی کی جس کیلئے انہوں نے اپنے عزیزوں سے قرض لے کر سونے کے زیور ات زیادہ تعداد میں بنوائے۔ اس حوالے سے بھی ان کے اوپر قرض موجود ہے۔ اپنے خاندان میں ان کا شمار ان قرضوں کے باعث مناسب الفاظ میں نہیں ہوتا۔
PTI
بنیادی طور امجد اللہ خان اپنے ان مالی مسائل سے نکلنے کیلئے تحریک انصاف کے میدان سیاست میں آئے اور کم وقتوں میں اس مقام پر پہنچ گئے کہ انہیں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے کھڑا کر دیا گیا ۔ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ضرور ہے تاہم اس بڑے پن کے باوجود اپنے امیدواروں کو تحقیق کے بعد میدان میں لانے اور نہ لانے کی غلطیاں ان سے سرزد ہورہی ہیں۔ امجد اللہ خان کے معاملے میں بھی ان سے یہی کچھ سرزد ہوا۔ اس پورے واقعے میں یہ تاثر سامنے آتا ہے کہ امجداللہ خان اس طرح سے اپنی مالی و معاشی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہ سارے اقدامات اٹھانا چاہتا تھا لیکن جو کچھ ہو ا وہ سب کے سامنے ہے۔ ان کے اس عمل نے تحریک انصاف کو سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا ۔ اس کے بعد دیگر جماعتوں کیلئے بھی یہ عمل لمحہ فکریہ ہوگا۔ ایم کیو ایم کا جہاں تک تعلق ہے تو اس جماعت کے پاس نہ امیدواروں کی کبھی کمی تھی ، نہ ان دنوں میں ہے اور شاید نہ ہی مستقبل میں رہے گی۔سیاست کی جانب آنے والے نوجوانوں کیلئے امجد کے اس کردار کے بعد سیاست میں آنے اور طرز سیاست کرنے کو سوچنے کا ایک باب آیا جس بعد انہیں اس میدان عمل میں آنے اور یہاں سے اپنے سفر کو آگے بڑھانے ،اپنے لئے اپنے ملک کیلئے خدمت سرانجام دینے کے جذبات کو عملی جامہ کیلئے مثبت و منفی راہ بنانے کا موقع سامنے آیا ہے۔