اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج پر پیر انتیس جون کو کیے گئے خونریز حملے کے پیچھے ’بلا شبہ‘ بھارت تھا۔ عمران خان نے یہ بات اس حملے کے ایک روز بعد اسلام آباد میں ملکی پارلیمان میں کہی۔
پاکستانی دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سربراہ حکومت نے پارلیمان میں کہا کہ اس امر میں ‘کوئی شبہ نہیں‘ کہ کراچی میں ایک روز قبل کیے گئے حملے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا۔ اس حملے میں نیم خود کار ہتھیاروں اور دستی بموں سے مسلح چار حملہ آوروں نے ملکی کاروباری مرکز اور سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کر دیا تھا۔
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
عسکریت پسندوں کی اس کارروائی میں ایک پولیس اہلکار اور دو سکیورٹی گارڈز ہلاک ہو گئے تھے جبکہ چند ہی منٹوں میں موقع پر پہنچ جانے والے سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں یہ چاروں حملہ آور خود بھی مارے گئے تھے۔
بھارت نے اپنی طرف سے اس حملے کے کچھ ہی دیر بعد کہہ دیا تھا کہ اس حملے سے اس کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نے آج بدھ کے روز قومی پارلیمان کے ارکان سے اپنے خطاب میں کہا، ”اس بات میں کوئی شبہ موجود ہی نہیں کہ اس حملے کے پیچھے بھارت تھا۔
گزشتہ دو ماہ سے میری حکومت کو علم تھا کہ کوئی نہ کوئی حملہ ہو سکتا تھا اور نہ صرف ملکی کابینہ کو مطلع کر دیا گیا تھا بلکہ تمام سکیورٹی ادارے بھی پوری طرح چوکنا تھے۔‘‘
اس حملے کے کچھ ہی دیر بعد پاکستانی صوبہ بلوچستان میں فعال اور ملک کے کئی علاقوں میں خونریز حملے کرنے والے عسکریت پسند گروپ بلوچستان لبریشن آرمی یا بی ایل اے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے نام ایک ای میل میں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یہ حملہ اس کی کارروائی تھا۔
اس ای میل میں کالعدم تنظیم بی ایل اے نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس حملے کی ذمے داری تو قبول کرتی ہے لیکن اس کا مقصد پاکستانی معیشت کو نشانہ بنانا نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہ حملہ ‘بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے ردعمل میں چین کے اقتصادی مفادات کو ٹارگٹ کرنے‘ کے لیے کیا گیا تھا۔
بلوچستان لبریشن آرمی صوبہ بلوچستان میں سرگرم کئی کالعدم عسکریت پسند گروپوں اور تنظیموں میں سے ایک ہے۔ یہ تنظیمیں مجموعی طور پر ایک ایسے پیچیدہ سکیورٹی منظر نامے کی عکاسی کرتی ہیں، جن میں بلوچ علیحدگی پسند بھی شامل ہیں، شدت پسند مسلمان بھی اور فرقہ واریت پھیلانے والے مذہبی عناصر بھی۔
بی ایل اے گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں بنیادی ڈھانچے اور چینی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے جو حملے کر چکی ہے، ان میں 2018ء میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر کیا جانے والا ہلاکت خیز حملہ بھی شامل ہے اور بلوچستان میں گوادر کے قریب گزشتہ برس ایک لگژری ہوٹل پر کیا جانے والے مسلح حملہ بھی۔