تحریر : وقار النساء آج پھر کراچی میں دہشتگردی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا – جب جعفریہ الائنس کی بس پر صفورا چورنگی پر فائرنگ کی گئی مخصوص کمیونٹی کی اس بس میں پچاس سے زائد لوگ سوار تھے جن میں خواتین اور بچے شامل تھے چھ دہشتگرد تين موٹر سائیکل پر سوار تھے جوکھلے عام اسلحہ لئے بس کے پیچھا کر رہے تھے وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہوئے۔
پولیس کی وردی میں ملبوس ايک شخص نے بس کو روکا اور بس کر روک کر بس میں سوار ہوگئے معصوم نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تینتالیس لوگ موقع پر ہلاک ہوگئے – باقی شديد زخمی ہوئے گولیاں لوگوں کے سر سینے اور چہروں پر لگیں -دن دھاڑے المناک واقعہ پیش آیا۔
Terrorism
آج پھر کراچی کے بے گناہ لوگون کا خون کراچی کی زمين کو سرخ کرگيا يہ سچل کا علاقہ ہے جو بہت مہنگا علاقہ ہے –يہاں بتايا جارہا ہے کہ زيادہ ترعمارات زير تعمير تھيں ھميشہ کی طرح معصوم جانوں کا زياں ہوا گھرانے اجڑے اور حکومت کے نمائندےٹی وی پر آکر بيان ديکر فارغ ہو گئے سياستدانوں نے اس واقعہ کی مذمت کر دی- کيا يہ سب کافی ہوگيا ؟ يہ کہہ دينا کہ سوچی سمجھی سکيم کے تحت يہ واقعہ ہوا تو يہ سواليہ نشان ہو گا۔
گورنمنٹ کی کارکردگی پر کہ انہوں نے کيا انتظامات کر رکھے ہيں ان واقعات سے نپٹنے کے لئے – دہشت گرد ايس ايم جی اور بھاری ہتھيار لے کر شہر ميں مخصوص بس کے پيچھے تھے تو ملک ميں امن وامان قائم رکھنے والے کہاں تھے ؟ کيا ان کی نااہليت پر ان سے پوچھنے والا کوئی نہيں؟ ملک ميں عہدے بھی ہيں اور عہدے داران بھی –جو اپنے عہدوں کا معاوضہ بھی ليتے ہيں ليکن ان کا کام جو لوگوں کی جان مال کا تحفظ ہے وہ اس ميں ناکام ہيں قانون نافذ کرنے والے ادارے ھميشہ جائے وقوع پر بر وقت نہيں پہنچ پاتے جو ان کی اپنے پيشے سے لاپرواہی کا ثبوت ہے۔
اس علاقے ميں ايک پوليس چوکی بھی ہے جہاں پوليس کے اہل کار موجود نہيں تو پوچھا جائے حکومت سے کہ اس کے بنانے کا کيا مقصد ہے ؟ اس ملک کے شہری کب تک طفل تسليوں سے بہلائے جائيں گے –کہ دہشت گردوں کے خلاف گورنمنٹ سخت اقدام کرے گی آہنی ھاتھوں سے نپٹا جائے گا – ھميشہ کی طرح يہ واقعہ بھی تفتيش کی لسٹ ميں لگ جائے گا –اور کبھی نہ تفتيش مکمل ہو گی اور نہ ہی نتيجہ سامنے آئے گا! لوگوں کی زندگياں محفوظ نہيں دو کروڑ کی آبادی کا يہ شہر ہر وقت سولی پر لٹکا ہوا ہے –ہر پل موت کے سائے ان کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہيں۔
جہاں امن واماں کی اتنی بری صورتحال ہو گی وہاں لوگ کس طرح پر سکون زندگی گزار سکتے ہيں جائے وقوع سے کچھ فاصلے پر ايک غير آباد مکان ہے جہاں يہ لوگ چھپے ہوئے تھے بتايا جاتا ہے کہ اس علاقے ميں لينڈ مافيا اس طرح کی جگہوں پر قبضے کے لئے موجود رہتے ہیں –رشوت دے کر علاقے پر قبضہ کيا جا رہا ہے سوچنے کی بات ہے کہ ايسا کيوں ہے؟ کيا اس کا کوئی حل حکومت کے پاس نہيں؟ کہ يہ لوگ اسلحے کے ساتھ وہاں موجود رہتے ہيں جس سے يہ تفريق کرنا بھی مشکل ہے کہ يہ لينڈ مافيا ہے يا دہشت گرد؟ کافی وقت سے کراچی شہر ميں بڑا نيٹ ورک پروفيشنل لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن ميں ڈاکٹر پروفيسروکيل صحافی شامل ہيں۔
Karachi
محض افسوس کے چند جملے بول کر اور واقعہ کی مذمت کر کے کوئی اپنے فرائض سے عہدہ براہ نہیں ہو سکتا بلکہ حقیقی معنوں ميں اس تکلیف اور اپنے لوگوں کے درد کو سمجھنا ہو گا اور ان سب نکات پر دل سے سوچنا ہوگا جولوگوں کی جان کو تحفظ فراہم کر سکیں –صرف جان سے جانے والوں کے لئے رقم ان کے درد کو کم نہیں کر سکے گی جب تک جکومت اپنی ذمہ داريوں کو محسوس کر کے کراچی کے حالات ميں بہتری نہ لا سکے اس وقت ضروت ہے تمام ادارے مل کر شواہد اکٹھے کریں انوسٹی گیشن کریں موثر کاروائی کریں اور اس کو لوگوں کے سامنے لائیں۔