تحریر: سید انور محمود اسلام آباد میں ایک صاحب ہوٹل والے سے روٹی مانگ رہے تھےاور پیسے کم دئے رہے تھے جب وہ پورئے پیسے دینے پر تیار نہیں ہوئے تو ہوٹل والے نے روٹی واپس رکھ دیں اور اُن صاحب کو کہا کہ ان پیسوں کو لیکر کراچی چلے جایں وہاں روٹی سستی ہے، قریب ہی ایک اور صاحب کھڑئے تھے وہ بولے لیکن ایک بات یہ بھی یاد رکھنا کہ کراچی میں روٹی سستی اورموت مفت ملتی ہے۔ کراچی بڑاغریب پرور شہر ہے، کبھی یہاں ہر ایک کو روزگا ر کی آسانیاں تھیں۔ معروف انگریزی جریدے اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی 2015ء میں دنیا کا سستا ترین شہر ہے۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ (ای آئی یو) کی رپورٹ دنیا بھر کے 133 شہروں کے سروے پر مبنی ہے جس میں روزمرہ کی اشیاء ضرورت، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات اور گھریلو خادموں، نجی سکولوں اور ٹرانسپورٹ جیسی خدمات کی قیمتوں کی بنیاد پر ان شہروں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اکنامسٹ نے اس سال 133شہروں کا انتخاب کیا جس میں اس بار غریب پرور شہر کراچی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کراچی میں آج بھی پچاس روپے میں ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے، اسی روپے میں اچھا لباس مل جاتا ہے جبکہ تین سو روپے میں سارے دن کے لیے مزدور مل جاتا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی کو اس سے قبل کئی سال تک دنیا کے سستے ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ سال 2013ء کے دوران ممبئی اور کراچی کو مشترکہ طور پر دنیا کا سب سے سستا ترین شہر قرار دیا گیا تھا۔ اس سے قبل 2012ء اور 2011ء میں اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے کسی شراکت کے بغیر کراچی کو دنیا کا سب سے سستا شہر قرار دیا تھا۔ جبکہ 2014ء میں کراچی دوسرے اور ممبئی پہلے نمبر پر رہا۔2009ء میں بھی کراچی دنیا کے سستے ترین شہروں میں پہلے نمبر پر تھا۔ جنوری 2014ء میں شایع کی جانے والی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ’انفلیشن مانیٹرنگ‘ کی سالانہ رپورٹ 2013ء میں کراچی کو پاکستان کا غریب پرور شہر قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں دی گئی’کنزیومر پرائس انڈیکس‘ کے مطابق، پاکستان کا سب سے مہنگا شہر دارالحکومت اسلام آباد ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے، جبکہ سستا ترین شہر کراچی ہے۔ اسلام آباد میں کھانے پینے کی اشیا سمیت دیگر اشیا کی قیمتیں ملک کے دیگر شہروں کی قیمتوں کی نسبت زیادہ ہیں ، سندھ کے شہر لاڑکانہ کو ملک کا دوسرا مہنگا شہر قرار دیا گیا ہے۔
جب تک کراچی میں امن اور سکون تھا کراچی رات کو بھی جاگتا تھا، اگر آپ کو رات کو گرم کھانا کھانے کا دل چاہتا تو رات کے تین بجے گرما گرم روٹی اور نہاری مل جاتی تھی۔ آج دو کڑوڑکے قریب کی آبادی والےاس شہر کراچی میں لوگ گھرسے باہر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی اُنکو لوٹ نہ لے، کوئی ٹارگیٹ کلراُنکو اپنا نشانہ نہ بنالے، کسی بازار میں کوئی خودکش حملہ آور نہ آجائے، کسی مسجد میں نمازکےلیے جاتے ہیں تو بم دھماکے کا خوف رہتا ہے، کسی بس میں سفر کرتے ہوئے یہ خوف رہتا ہے کہ اس کا گیس کا سلنڈر نہ پھٹ جائے، کسی ایسے علاقے میں نہیں جاتے جہاں دوسری زبان بولنے والے رہتے ہوں، ڈرتے ہیں کہ کوئی اُنکو اُنکی زبان کی بنیاد پر نہ مار دئے، اور کسی دوسرئے عقیدئے والے کو اپنے عقیدہ کا پتہ نہیں ہونے دیتے کہ کہیں وہ اُنکو کو مارکر جنتی نہ ہوجائے۔ اب کراچی میں قبرستان آباد ہوگئے بلکہ کم پڑ گے ہیں، کپڑئے میں لٹھے کا کاروبار سب سے زیادہ ہورہاہے، گورکنوں کے گھر خوشحالی آگئی ہے، مردہ خانے کم پڑ گئے ہیں،گھر ویران اور سستے مگر قبروں کی قیمتیں چار گنا ہو گئی ہیں۔ پورا کراچی ایک آفت زدہ شہر بنا ہوا ہے جہاں موت کا رقص ہر روز ہورہا ہے۔ ابلیں بھی حیران اور پریشان ہوگا کہ یہ کون ہیں جو میرا کام مجھ سے زیادہ کررہے ہیں۔
Karachi Terrorism
امریکی محکمہ خارجہ کی کراچی کے حوالے سے2014ء کی رپورٹ نے دو کروڑ کی آبادی والے شہر قائد اور پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کے سب سے بڑے مرکز کراچی میں امن و امان کےکئی پہلو آشکارا کردئیے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اہل کراچی سکون کی نیند سوئے ہوں یا ان پر خوف کی کیفیت طاری نہ رہے۔2011ء میں ایک بین الاقوامی سروے میں کراچی کو دنیا کے13خطرناک ترین شہروں میں ایک شہر قرار دیا گیا تھا، جہاں اوسطاً دس ہزار کی آبادی پر قتل کئے جانے کی شرح 23 تھی یہ وہ سال تھا جب اس شہر میں ایک سال میں1700 سے زیادہ افراد ناکردہ گناہوں میں قتل کردئیے گئے۔ اب امریکی محکمہ خارجہ کی حالیہ رپورٹ میں یہ دل فگار انکشافات ہماری داستان الم بیان کرنے کیلئے بہت کافی ہیں۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، سیاسی اور مذہبی کشیدگی، قبضہ مافیا کی مجرمانہ سرگرمیوں نے شہر کراچی کو برسوں سے زخموں سے چور کررکھا ہے، پولیس بے دست وپانہیں رہی،سانحہ بلدیہ ٹائون میں257 افراد کو زندہ جلا دینے کے واقعے پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ نے کراچی میں سیاسی سرپرستی میں مسلح جتھوں کے جرائم کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے اجراء کوایک ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ جیسے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
وفاقی حکومت نے چار ستمبر 2013ء کو کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وفاقی سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس سینکڑوں شرپسند عناصر کے نام ہیں جن کے خلاف رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن ہو گا۔‘ آپریشن شروع ہونے کےڈیڑھ سال بعد امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بتایا گیاکہ گذشتہ برس شہر کراچی میں 2715 شہری نا حق قتل کئے گئے، پولیس اوررینجرز کے191 اہلکار شہید ہوئے، 108 اغوا کار پکڑے گئے، بھتہ خوری کے509 مقدمے درج ہوئے، رہزنی کے3082 کیسز پر ایف آئی آر کٹیں، 4068 گاڑیاں ،22ہزار سے زیادہ موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں اور 10 ہزار سے زائد موبائل فون چھینے گئے۔ ان تمام جرائم کے باوجود جو آپریشن کراچی کے دوران ہوئے ہیں ہمارئے وزیر اعظم صاحب کا فرمانا ہے کہ ” کراچی آپریشن کے اچھے نتائج نکلے، کراچی آپریشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،گن کلچر ختم کر کے دم لیں گے، آپریشن کو انجام تک پہنچائیں گے”
کیا کوئی ہمارئے وزیر اعظم صاحب کو یہ بتا سکتا ہے کہ آپکی ان باتوں کو سننے میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ گذشتہ پچیس سال سے کراچی کے رہاشی یہ ہی سن رہے ہیں ۔ بی بی سی کے ایک سروئے کے مطابق کراچی میں رہائش پذیر ہر دوسرا گھرانہ کسی نہ کسی طرح کے جرم کا شکار ہو چکا ہےاگروزیر اعظم صاحب کچھ عرصے کے لیے سیاسی موقعہ پرستی کو چھوڑ کر آپریشن کرینگے تب ہی کسی اچھے نتیجے پر پہنچ پاینگے اور پھر ہی کراچی کے عوام سکون کی زندگی گذار سکیں گے۔ پولیس فورس میں سیاست کی آلودگی نے نہ صرف امن کے قیام کی کوششوں کو کمزور کیا بلکہ اس سے جرائم کی شرح میں خطرناک حدتک یوں اضافہ ہوا کہ کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔ اس شہر میں قیام امن کیلئے سیاسی اتفاق رائے سے اقدامات کو آگے بڑھانا ہوگا اور جرائم سے غیر سیاسی انداز میں نمٹنا ہوگا۔ کراچی میں امن کا مطلب پاکستان کی خوشحالی ہے اورملکی ترقی اور معاشی استحکام میں کراچی کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔