سندھ کے وزیر اطلاعات سمیت کئی نام نہاد سندھ سے محبت کا دعوی کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر نئے صوبے پاکستان کے کسی اور صوبے میں بنائے جاتے ہیں تو ان کو اعتراض نہیں ہے مگر سندھ میں نہیں بن سکتے۔ بحیثیت ایک پاکستانی یہ کسِ طرح کی منافقانہ اور متعصبانہ پالیسی ہے۔ پیپلز پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے قائدین اگر سندھ کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں تو اسِ کی وجہ یہ نہیں کہ وہ سندھ اور سندھی عوام سے بہت پیار کرتے ہیں ورنہ پچھلے ساٹھ سالوں میں کئی مرتبہ پاکستان اور سندھ کا کنڑول سنبھالنے کے باوجود بھی یہ سندھ کے دیہی علاقوں میں بسنے والے عام سندھی کی حالت کچھ تو بہتر بناتے۔ آج بھی سندھ کے دیہی علاقوں میں جائیں تو ان کے پاس نا پینے کے لئے صاف پانی ہے، نا روزگار ہے اور نہ رہنے کے لئے چھت ہے اور اگر کچھ ہے تو صرف انِ وڈیروں کی غلامی کرنا جو مظلوم سندھی عوام کے نام نہاد سیاسی قائدین بنے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے سندھ میں زبان کے نام پر، سندھی مہاجر ،کا کارڈ کھیلتے آئے ہیں اور سندھ دھرتی کا نعرہ لگا کر سندھ کے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔
بدلہ میں آج تک سندھ کی عوام کے لئے کچھ نہیں کیا سوائے استحصال کے۔ اگر سندھ کئی صوبوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ کراچی الگ صوبہ بن جاتا ہے اور حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، اور میر پور خاص کو بھی صوبوں کا درجہ ملِ جاتا ہے تو ان علاقوں کے تمام باشندوں کو بلا تفریق فائدہ ہوگا اور اگر کسی کو نقصان ہوگا تو وہ صرف اور صرف سندھ کے ان وڈیروں اور قبائلی سرداروں کو ہو گا جو سیاسی قائدین کا روپ دھارکر سندھیت اور سندھ دھرتی کے نام پر سندھ کے سادہ اور غریب عوام کو استعمال کرتے ہیں۔ سندھ کے عوام سے محبت کا راگ الاپنے والے ان لیڈران کے اگر سیاسی سفر اور کارکردگی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ان کو اسلام آباد میں کوئی کرسی ملتی نظر آتی ہے تو یہ پنجاب کا سہارا لیتے ہیں اس وقت یہ سندھ کا ٹھکانہ بھول جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آصف علی زرداری تک سب نے پنجاب کا سہارا لیکر اپنی سیاسی دکان چمکائی اور سندھ کے عوام کو صرف احساسِ محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔
لہٰذا اگر سندھ کے عوام کو چا ہے شہری ہوں یا دیہی ان وڈیروں اور بدعنوان سیاسی مداریوں سے چھٹکارہ پانا ہے تو اپنے بہتر اور آزاد مستقبل کے لئے وہ فیصلہ کرنا ہوگا جو سندھ کے عام عوام کے لئے بہتر ہو۔دنیا بدل گئی ہے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بے شمار صوبوں پر مشتمل ہیں۔ پڑوسی ملک ایران میں 31 صوبے ہیں جبکہ آبادی 8 کروڑ ہے۔ افغانستان کی آبادی صرف 3 کروڑ ہے جبکہ صوبے 34 ہیں، ترکی آبادی 8 کروڑ ہے اور صوبے 81 ہیں۔ سندھ کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کی مخالفت کرنے والوں کو سمجھنا چائیے وہ کسِ دنیا میں رہ رہے ہیں اب وہ مزید اپنے ہی لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ سندھ کی آبادی تو افغانستان سے بھی زیادہ ہے۔سندھ کی آبادی 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور دنیا میں شاید ہی کسی ملک کا اتنی آبادی والا صوبہ ہوگا۔ لہٰذا کراچی کے علاوہ سندھ کو کم سے کم چار صوبوں میں تقسیم کر دینا چائیے۔ اور ویسے بھی کراچی پاکستان کے قیام سے لیکر 1970 تک سندھ کا حصہ نہیں تھا کیونکہ وہ ملک کا دارلخلافہ تھا۔
Nawaz Sharif
کراچی کو سندھ میں دینے کا جرم مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے اور مغربی پاکستان کا ون یونٹ توڑنے کا نتیجہ تھا۔ یہ باتیں بہت کڑوی ہیں اگر مزید بات کرونگا تو ان شخصیات کے نام لکھنے پڑیں گے جن کو آج ہمارے نامور لکھاری بابائے جمہوریت گردانتے ہیں اور ویسے بھی میرے اسِ مضمون کا یہ موضوع نہیں ہے۔ نواز شریف صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی میں دو دنِ گزار کر بڑے بڑے دعوی کر کے گئے کہ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے میں کسی سیاسی مصلحت سے کام نہیں لیا جائے گا۔ مگر ہو کیا رہا ہے؛ سندھ کی حکومت وہی پرانے نسخہ سے کراچی کا علاج کرنا چاہتی ہے۔ کراچی سمیت سندھ میں پولیس کے محکمہ میں بڑے پیمانے پر اوپر سے نیچے تک پولیس افسران تبدیل کر دئیے ہیں۔
کراچی کے حالات پر پولیس کی ناکامی کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ جب تک محکمہ پولیس میں سیاست سے پاک افسران تعینات نہیں کئے جائیں گے پولیس کراچی کے حالات ٹھیک نہیں کر سکتی۔ اور لگتا یوں ہے کہ سندھ کی حکومت حالات مزید خراب دیکھنا چاہتی ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں ایسے سندھی بولنے والے افسران کو چن چن کے تعینات کیا گیا ہے جن کو پیپلز پارٹی کی سرپرستی حاصل ہے اور جن کا تعلق کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں سے نہیں۔ مسئلہ سندھی بولنے والے افسران کا نہیں ہے کیونکہ ایک اچھے اور دیانتدار افسر کا تعلق کسی بھی زبان ، فرقہ یا نسل سے ہو سکتا ہے مگر کراچی اور سندھ کے شہروں میں جن نفرتوں کو متعصبانہ نظام کے ذریعہ پیدا کیا گیا ہے اس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے لازمی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں وہیں کے قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو حالات ٹھیک کرنے کا ذمہ دار بنایا جائے۔ مگر جیسا میں اپنے بیشتر مضامین میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ کراچی کے مسائل کی جڑوں میں جانا ہوگا۔
نا انصافی، اقربا پروری، تعصب اور تقسیم کی بنیاد پر فروغ دینے والے معاشرہ میں بدعنوانیاں، جرائم، لوٹ مار اور قتل و غارت گری جنم لیتی ہے اور آج کراچی میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہی وہ بنیادی نا انصافیاں ہیں کہ جن کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وہی نفرتیں پیدا کرنے کی حرکتیں پچھلی کئی دھائیوں سے ہورہی ہیں جو سابق مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلادیش کی عوام کے دلوں میں پیدا کی گئیں۔ جن لوگوں کو قلم کو اپنا ہتھیار بنانا چاہئے تھا آج وہ سمجھتے ہیں کہ بندوق کے بل پرہی انکو انکا حق مل سکتا ہے۔ یہ پاکستان کی سالمیت کے لئے بہت خطرناک کیفیت ہے اسے روکنا ہوگا۔
سندھ کی تقریبا آدھی آبادی سے تعلق رکھنے والی نسل کے لوگ پولیس اور دوسرے انتظامی اداروں میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اور یہ سب کچھ 1970 کے عشرے سے ہو رہا ہے۔ جس کا سدباب اب بھی نہیں کیا گیا تو اللہ نہ کرے آج جن حقیقتوں کو حکمراں طاقت اور جبرسے دبانے کی کوشش کررہے ہیں وہ انِ حکمرانوں کو ہی کہیں اپنے ساتھ بہا کر نہ لے جائے۔ لہٰذا اگر پاکستان میں رہنے والی تمام اکائیوں کو ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل دیکھنا ہے تو ہر طبقہ، علاقے کے لوگوں کو مساوی حقوق دینے ہونگے جس کے لئے سندھ سمیت پورے پاکستان میں بہتر انتظامی امور چلانے کے لئے اور عام آدمی کوبلا تقریق بنیادی حقوق دینے کے لئے اور ملک کو مضبوط کرنے کے لئے کئی سارے صوبے بنانے ہونگے۔