وزیرآباد کی خبریں 28/5/2016

Wazirabad

Wazirabad

وزیرآباد (نامہ نگار) شہر اور گردونواح میں عطائیت کی بھرمار ،سادہ لوح شہری صحت کی بجائے موت خرید رہے ہیں۔ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت سے کئی شہری عمر بھر کی معذوری کے علاوہ خطرناک امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ مستند معالجین کی کمی ، سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے نامناسب رویے اور طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے شہر سے دور دیہاتوں میں بسنے والے افراد کی بڑی تعداد عطائیوں سے علاج کروانے پر مجبور ہے۔ وزیرآباد شہر کے علاوہ الہٰ آباد، نظام آباد ، قدرت آباد،دھونکل، گھکا میتر ، جامکے چٹھہ، احمد نگر ، رسولنگر اور دیگر آبادیوں میں جگہ جگہ عطائیوں نے انسانی جانوں سے کھیلنے کے مراکز بنا رکھے ہیں جہاں سستے علاج معالجہ کے علاوہ چھوٹے موٹے آپریشن بھی کردیئے جاتے ہیں جس سے مجبوری کی حالت میں آنے والے مریض کی اگر زندگی بچ جائے تو عمر بھر کی معذوری ساتھ لیجاتا ہے۔ ایک عرصہ سے مختلف عوامی، سماجی حلقوں کی طرف سے عطائیت کیخلاف محکمہ صحت کے متعلقہ حکام کو آگاہ کرنے کے باوجود ان عطائیوں کیخلاف کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کئے گئے جبکہ اگر کوئی چھوٹا موٹا انتظامی آپریشن کیا بھی جائے تو عطائیوں سے رقم لیکر انہیں دوبارہ کام کرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شہر میں عطائیت پر قابو پانے والے ذمہ داران غفلت کی نیند سو رہے ہیںیہی وجہ ہے شہر میں عطائیت کا سیلاب آچکا ہے۔ عطائی ایلوپیتھک ادویات کیساتھ دیسی اور ہومیوپیتھی ادویات کا بھی استعمال کرواتے ہیں جس سے مریض کا مرض ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔ مختلف میڈیکل سٹور مالکان بھی کھلے عام عطائیت کوفروغ دینے میں مصروف ہیں جبکہ غیر قانونی طور پر بنائی گئی لیبارٹریوں پر کوئی مستند پتھالوجسٹ موجود نہیں ہوتا ان لیبارٹریوں پر موجود افراد ایکسرے اور مختلف بیماریوں کی تشخیص کے نام پر مریضوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں بیشتر افراد لیبارٹریوں کی آڑ میں دیگر دھندے کررہے ہیں۔

میڈیکل سٹوروں پربھی ممنوعہ ادویات کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے بیشتر نشہ آور ادویات اور انجکشن بغیر ڈاکٹری نسنحے کے فروخت کرکے منشیات جیسے دھندے کو پروان چڑھایا جارہا ہے بیشتر مقامات پر ایک ہی لائسنس پر مختلف مقامات پر کئی میڈیکل سٹورز چلائے جارہے ہیں جبکہ بغیر لائسنس بھی میڈیکل سٹور چلائے جانے کا انکشاف ہے ایسے میڈیکل سٹورعطائیوں کی سرپرستی میں مصروف ہیںغیر رجسٹرڈ میڈیکل سٹوروں پرنا اہل اور ان پڑھ عملہ تعینات ہے جہاں سے ہر ماہ محکمہ صحت کے اہلکار نذرانہ وصول کر کے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ان میڈیکل سٹوروں میں موجود ادویات کی اکثریت زائد المعیاد ہوتی ہے ان میڈیکل سٹوروں میں جنسی نشہ آور اور غیر معیاری ادویات کی وافر کھیپ موجود ہے۔ محکمہ صحت کے ار باب اختیار اور ضلعی حکومت معلومات ہونے کے باوجود جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ ان میڈیکل سٹوروں پر کام کرنے والے افراد زیادہ تر میڑک فیل ہونے کے ساتھ ساتھ ، ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کا روپ دھارے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے شریف اور سادہ لوح شہریوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے جبکہ مضافاتی علاقوں میں موجود سرکاری ہسپتالوں کی حالت انتہائی خستہ حال ہے جس کی وجہ سے شہری پرائیویٹ اور عطائیوں کے ہتھے چڑھنے پر مجبور ہیں۔ جن کو محکمہ صحت کے افسران کی پشت پناہی حاصل ہے محکمہ صحت کے افسران فرضی کارروائی کر کے حکام بالا کو رپورٹ ارسال کر دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں شہری صحت سے متعلقہ بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ نان رجسٹرڈ میڈیکل سٹوروں پر عطائیت پروان چڑھ رہی ہے۔ عطائیوں کی اکثریت نے اپنے اپنے کلینکوں پر ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے سائین بورڈ لگا رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ انتظامیہ کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔شہریوں ، عوامی ، سماجی حلقوں نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام سے عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ طبی سہولتیں دینے ، عطائیوں اور ان کے سرپرست محکمہ صحت کے ملازمین افسران کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیرآباد (نامہ نگار) چیف سیکرٹری پنجاب کی طرف سے وزیرآباد میں نکاسی آب کے دیرینہ مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے تشکیل دیا گیاپلان مختلف محکموں کی منظور ی اور ذیزائن پاس ہونے کے بعد بھی تاخیر کا شکار ،عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ شہری حلقوں کا کمشنر گوجرانوالہ، چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے صورتحال کا نوٹس لینے اور نکاسی آب کے پلان پر عملدرآمد کا مطالبہ۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب نوید اکرم چیمہ نے وزیرآباد کی عوام کے مطالبہ پر سیوریج کے دیرینہ مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے کچہری چوک سے ونجووالی اور شہر کے قدیمی نالہ سے پلکھو تک سیوریج سکیم منظورکرتے ہوئے کرورڑوں روپے فنڈز کی منظوری دی گئی جس پر نقشہ اورڈیزائن پاس ہونے کے علاوہ منصوبہ محکمہ پبلک ہیلتھ پنجاب کی طرف سے بھی منظور کرلیا گیا۔منصوبہ کی مکمل فائل تیار ہونے کے باوجوود چیف سیکرٹری پنجاب نوید اکرم چیمہ کے ریٹائر ہوتے ہی التواء کا شکار ہوگیا۔ نوید اکرم چیمہ کے دور میں پھرتیاں دکھانے والے افسر بھی اس معاملہ کو نظر انداز کرتے ہوئے میٹھی نیند سوگئے ۔ شہریوں نے بتایا کہ سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے علاقہ مکینوں کو شدید دشواری کاسامنا ہے ۔ اگر سابق چیف سیکرٹری پنجاب کی طرف سے منظور کئے گئے منصوبہ پر عملدرآمد نہ ہوا تو آنے والے دنوں میں سیوریج کی وجہ سے علاقہ مکینوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی جس سے شہری احتجاج پر مجبور ہوں گے۔ عوامی، سماجی شخصیات نے کمشنر گوجرانوالہ، چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے صورتحال کا نوٹس لینے اور نکاسی آب سیوریج سکیم کے پلان پر بلاتاخیرعملدرآمد کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیرآباد (نامہ نگار) گوجرانوالہ میں ہائی کورٹ بینچ کا قیام وقت کی ضرورت ہے گوجرانوالہ ڈویڑن 2 کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود ہائی کورٹ بینچ کا نہ ہونا بڑی زیادتی ہے۔صدر بار ایسوسی ایشن اعجاز احمد پرویا ، جنرل سیکرٹری جمشید سلطان گھمن نے بارہال میں پریس کا نفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ گوجرانوالہ میں ہائی کورٹ بینچ نہ ہونے سے سائلین کی زندگی اجیرن بن چکی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی 2013 کے الیکشن میں گوجرانوالہ میں بینچ کے قیام کا وعدہ کیا تھا مگر تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔ گوجرانوالہ ڈویژن کے وکلاء اس جدوجہد میں ہیں کہ شہریوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف میسر آسکے جو ہر پاکستانی شہری کا قانونی حق بنتا ہے۔ گوجرانوالہ ڈویژن کے اضلاع منڈی بہائوالدین،نارووال، گجرات، سیالکوٹ، حافظ آباد ، گوجرانوالہ اور دوردراز کے علاقوں کے مکین ڈویژنل بینچ نہ ہونے کی وجہ سے سخت ترین موسمی حالات میں مہنگے کرایے برداشت کرتے ہوئے لاہور جانے پر مجبور ہیں ۔ گوجرانوالہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ہزاروں وکلاء نے اس سلسلہ میں26 مئی کو احتجاجی دھرنے کا پلان تشکیل دیا تھا مگر چیف جسٹس ہائی کورٹ پنجاب کی طرف سے اس سلسلہ میں بلانے پر ہمیں یہ پروگرام منسوخ کرنا پڑا ۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اورر پانچ سنیئر ججز پر مشتمل پینل سے ہمارے 2 گھنٹے سے زائد مذاکرات ہوئے اور ستمبر2016ء تک کا وقت مانگا گیا مگر وکلاء کی طرف سے اس پر رضامندی ظاہر نہ کی گئی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہائی کورٹ بینچ گوجرانوالہ کی منظوری میں تاخیر ی حربے نہ آزمائے جائیں کیونکہ اس سے سول سوسائٹی کو بہت سی مشکلات درپیش ہیں سائلین کو انصاف کے لئے لاہور کے چکروں میں ذلیل وخوار ہونا پڑتا ہے جبکہ لاہور کے چکروں میں وکلاء کی بھاری فیسیں اور کرایوں کی وجہ سے سائلین کو مایوس ہو کر انصاف کی راہ چھوڑنا پڑتی ہے۔ہماری طرف سے17ستمبر تک طویل مہلت نہ دینے کی وجہ سے 17جولائی 2016ء تک مثبت جواب دینے کا عندیہ دیا گیا۔

جبکہ باخبر ذرائع سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ہائی کورٹ بار کا ایک اجلاس بلایا گیا ہے جس میں بااثر وکلاء کا ایک پینل جو اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے ڈویژنل بینچ کے قیام کی مخالفت کررہا ہے نے قرار داد لانے کا منصوبہ کیا ہے ہم سوموار30مئی کو ہونے والے اس اجلاس میں شامل ہو کر یہ قرار داد منظور نہیں ہونے دیں گے۔ صدر بار ایسوسی ایشن اعجاز احمد پرویا نے کہا کہ گوجرانوالہ میں ہائی کورٹ بینچ کا قیام وکلاء کا ہی نہیں کروڑوں عوام کا معاملہ ہے ، پولیس اور دیگر اداروں سے وابستہ افراد کو بھی لاہور ہائیکورٹ کے چکروں میں دشواری کے علاوہ محکموں پر اخراجات کا بوجھ پڑتا ہے جو بنچ کے قیام سے کم ہوگا۔اسی وجہ سے مقامی سطح پر انصاف کی فراہمی کی غرض سے گوجرانوالہ ڈویژن کے وسط وزیرآباد میں ہائی کورٹ بینچ کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لاہور کے چند وکلاء کی طرف سے گوجرانوالہ بینچ کے قیام کے خلاف قرار داد کو کثرت رائے سے مسترد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، چیف جسٹس ہائی کورٹ پنجاب لاہور اور دیگر ارباب اختیار و اقتدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گوجرانوالہ میں ہائی کورٹ بینچ بنا کر شہریوں کو سستے اور فوری انصاف کے حصول کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔