کراچی (جیوڈیسک) چودہ سالہ دلاور کی ماں نور بیگم ان دنوں اپنے بیٹے کی گمشدگی کے صدمے سے دوچار ہے۔ نور بیگم کا بیٹا ایک تولیہ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ ہفتہ قبل معمول کے مطابق کام پر گیا اور پھر واپس گھر نہیں لوٹا۔ گھر اور اس کی فیکٹری کے راستے میں پڑنے والی شاہراہ پر چلنے والی تمام کوچ اور بس ڈرائیوروں اور مسافروں کو نور بیگم ان دنوں اپنے گمشدہ بچے کی تصویر دکھا کر اس کے بارے میں معلومات دریافت کر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نور بیگم نے بتایا کہ “کوچ کی ہر گاڑی کے آخری اسٹاپ تک تمام گاڑیاں دیکھیں، مگر دلاور کا کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ سب کہتے ہیں کہ ایسا کوئی بچہ ہم نے نہیں دیکھا”۔ اورنگی ٹاون کے رہائشی بادشاہ خان بھی اِن دنوں اپنے ماموں زاد بیٹے محمد عاصم کی گمشدگی پر سخت پریشان ہیں، جو گزشتہ ہفتے ایک رشتےدار کی شادی میں شرکت کی غرض سے اپنے والد کےساتھ حیدرآباد سے کراچی آیا تھا۔
بقول اُن کے، “سارا کراچی چھان مارا۔ ایدھی، چھیپا سینٹر، تمام مساجد میں اعلان بھی کروائے، پوسٹر لگوائے مگر ابھی تک بچے کا کوئی پتا نہیں چلا”۔ محمد حمید بھی اپنے بیٹے، احمد کیلئے ایسے ہی غم سے دوچار ہیں۔ کہتے ہیں وہ اکثر گھر سے باہر جایا کرتا اور پھر واپس آ جاتا۔ سمجھ نہیں آ رہی کہاں چلا گیا؟ کیا ہوا ہے؟ کچھ پتہ نہیں علاقہ پولیس کہتی ہے دیکھ رہے ہیں جیسے ہی کچھ پتا چلےگا بتادیں گے”۔
دلاور، عاصم اور احمد کے والدین ان دنوں اپنے بچوں کے گمشدہ ہوجانے سے سخت پریشانی اور دکھ میں مبتلاہیں۔ کراچی میں بچوں کا اغوا ہوجانا یا لاپتا جیسے واقعات عام واقعات تصور کئےجاتے ہیں۔ ان واقعات میں بچوں کی تلاش کیلئے کئی والدین ایسی ہی پریشانیوں سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔
کراچی میں بچوں کے حقوق اور لاپتہ ہونے کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم، ’مددگار نیشنل ہیلپ لائن’ نے رواں برس کے سات ماہ کے دوران پیش آنےوالے ایسے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ رواں برس شہر میں 1334 بچے لاپتا ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس برس بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں 24 فیصد اضافہ ہواہے۔
تنظیم کے سربراہ اور بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم ضیا اعوان نے بتایا ہےکہ “بچوں کے اغوا، انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری کے معاملات پاکستان میں بہت زیادہ ہیں، یہ ایک بہت ہی سنگین صورتحال ہے۔ 1334 بچے ہماری ہیلپ لائن پر رپورٹ ہوئے ہیں۔ مختلف قسم کے مافیا ہیں جہاں بچے جاتے ہیں۔ مگر ان بچوں کا پتا کرنا ان کو تلاش کرنے کا ایسا کوئی نظام یہاں موجود نہیں ہے”۔
انھوں نے کہا کہ “اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو دیکھیں، مگر اب تک ایسا کوئی نظام نہیں بنایا جا سکا”۔
شہر کراچی میں بچوں کے گمشدگی اور لاپتا ہونے کے معاملات میں اضافہ سامنے آیا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم کی تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ سال بھر کے یہ اعداد و شمار ماہ جنوری میں 173 بچے، مارچ میں 203 اور ماہ جون میں 217 بچوں کی گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
اس غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ بچوں کی گمشدگی کے واقعات کا معاملہ کراچی میں کوئی نیا نہیں۔ یہ واقعات صرف صوبہٴ پنجاب تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔