کراچی (جیوڈیسک) امریکی جریدے ’’فارن پالیسی ‘‘ نے ’’ کراچی کے قاتل ‘‘ نامی مضمون میں لکھا کہ 8 جون کو کراچی ائیر پورٹ پر طالبان حملے نے مادی طور پر تو کم لیکن اخلاقی زخم انتہائی سنگین لگا دیئے۔ طالبان کے ساتھ جاری رہنے والی اس لڑائی کو پاک فوج نے تو ختم کرادیا تاہم اس میں حملہ آوروں سمیت 38 افراد ہلاک ہوئے۔اس سانحے نے پاکستان کی سلامتی کی کمزوری کو بے نقاب کردیا اور واضح کیا کہ مسلح افراد وحشیانہ انداز میں شہریوں کی زندگی میں آسانی سے خلل ڈال سکتے ہیں۔
کراچی کے باشندوں کو ایسی صورت حال یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی سڑکوں اور گھروں کی حفاظت پر حکومت کی پکڑ انتہائی کمزور ہے،وہ کئی سالوں سے ڈرامائی سیاسی تشدد کو برداشت کرتے آرہے ہیں جن میں 2007 میں بے نظیر بھٹو کو بم دھماکے سے قتل کرنے کی سازش ، 2009 میں شیعہ کمیونٹی پر حملے اور 2011 میں مہران نیول بیس پر جیسے حملے بھی شامل ہیں۔ کراچی میں گزشتہ چار سالوں میں 10600 شہریوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 2013 میں 32 سوافراد کی پرتشدد واقعات میں ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ 2013 میں ایک ہزار افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
دیگر متشدد واقعات میں گینگ وار، مجرمانہ حملے، فرقہ وارانہ تشدد، بم دھماکوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے قتل شامل ہیں۔ ان واقعات نے کام پر جانے والوں کے لئے عدم تحفظ پیدا کیا۔کراچی کی گلیوں میں شہری سہولیات کی عدم فراہمی نے سنگین صورت حال پیدا کیںجس کی بڑی وجہ کرپٹ اور نااہل پولیس عناصر ہیں۔ 2 کروڑ آبادی کا حامل کراچی دنیا کا واحد میگا سٹی جہاں کوئی ماس ٹرانزٹ نہیں۔
پندرہ سال سے ٹیکس سے ٹرانسپورٹ ، تعلیم سے صحت، شہری ترقی سے پولیس تک ریاست کا کنٹرول کمزور ہو تا جا رہا ہے۔ ریاست بنیادی خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہی امن و امان کی ناقص صورت حال کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کراچی کے شہری دو موبائل رکھتے ہیں ایک سستا جو چھیننے کی صورت میں کھو دیتے اور قیمتی موبائل اپنے بیگز یا دیگر اشیاء میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ کراچی کے باشندے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ کراچی کے باشندوں نے ذہنوں میں دیواریں کر رکھی ہیں جو کسی نقشے پر نہیں جن کی بنیاد طبقاتی، نسلی،لسانی، مذہب اور صنفی بنیادوں پر ہے۔