تحریر: ایم آر ملک جس کا خمیازہ روشنیوں کا شہر ایک طویل عرصہ سے بھگت رہا ہے اِسے ہم جرائم کی سیاسی سرپرستی کا نام دے سکتے ہیں پاک فوج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وطن عزیز میں محب وطن، محب عوام اگر کوئی ادارہ ہے تو وہ پاک آرمی ہے انسان دشمنی میں سیاست کے ڈاکٹر نے جہاں تک جانا تھا وہ جاچکا اس سے بڑی انسانیت دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ نائن زیرو سے ”دہشت گرد ” پکڑے جائیں اور سیاست کا ڈاکٹر اُن کے سر پرستوں کو حکمرانی میں حصہ دار بنانے پر بضد ہو زرداری کی منصوبہ سازی اور ذہن سازی یہ ثابت کررہی ہے کہ وہ سینکڑوں لوگوں کے قاتلوں کو براہ راست حکمرانی سے بالواسطہ حاکمیت کا اختیار اقتدار کی شراکت کے ذریعے دینا چاہتے ہیں۔
اسے ملک دشمن قوتوں کی دلالی کہا جاسکتا ہے دو بڑی پارٹیوں کی مفاہمت کی سیاست نے جمہوریت کو متروک اور اکثریت کی زندگی کو عذاب مسلسل میں ڈال دیا ہے ،ذلت اور سماجی اذیت سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوتا جارہا ہے ان جمہوری مافیاز میں گھرے ہوئے عوام پاک فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں جو روشنیوں کے شہر کے باسیوں کے اعتماد کی بحالی اور دلوں میں اُمید کی شمع ہے کہ اپنے سوا دو سالہ دور اقتدار میں جمہوریت نے شہر کی رگوں پر اپنے دانت پیوست کئے ڈریکولا سے نمٹنے کیلئے اپنی ناممکن کے تصور کی سوچ کے تحت وطیرہ اپنایا ،فیکٹری میں بھتہ خوروں نے زندہ انسانوں کو راکھ بنا ڈالا ،ولی بابر کی لاش گری مگر زرداری نے ان لاشوں پر بھی منافعوں کی سیاست کی اُس کے گماشتے اویس مظفر ٹپی خون میں ڈوبے شہر سے اپنے ناجائز منافعے سمیٹتے رہے۔
آج بھٹو پارٹی کی قیادت کی راسیں ایک ایسی لمپن قیادت کے ہاتھوں میں ہے جو بھٹو دشمن قوتوں کی اطاعت پر اترا رہی ہے جس نے قائد عوام کی پارٹی کو ضیاء باقیات کا گماشتہ بنا کر رکھ دیا نواب شاہ کی فضائوں میں حاکم علی زرداری کے الفاظ ایک بازگشت کی شکل میں معلق ہیں کہ ”ہم بھٹو خاندان کو داستان عبر ت بنا دیں گے”اور پارٹی چیئرمین کی شکل میں ایک زرداری کو جعلی بھٹو بنا کر بے ہودہ ناٹک رچایا جا رہا ہے۔
بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء جس پارٹی کو گیارہ برس میں ختم نہ کر سکا ایک لمپن قیادت نے اُس کا تیا پانچہ کر ڈالا حادثاتی طور پر مسلط ایک ایسی نو مولود قیادت جو نظریاتی ورکروں کے روایتی تنقیدی رویئے کو ”پارٹی دشمنی ”قرار دیکر اُنہیں عُزیر بلوچ جیسے لے پالک غنڈوں کے ذریعے رستہ سے ہٹاتی رہی احباب کی محافل میں یہ سچ اکثر سُننے کو ملتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا کا قاتل وہی ہے جسے سب سے زیادہ مفاد محترمہ کی موت سے ہوا نظریاتی ورکروں کے بے وقت کھو جانے کا دُکھ جتنا محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا اُتنا بھلا جعلی قیادت کو کیسے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ہم 17جون 2004میں شہر قائد میں گرنے والی ایک نظریاتی ورکر منور سہر وردی کی لاش سے لگا سکتے ہیں جس کی موت کے کرب کی پرچھائیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے حواس پر چھائی رہیں اُن کے ان ریمارکس کو اس موت پر بھلایا نہیں جاسکتا کہ ”مجھے منور سہر وردی کے کھو جانے کا غم اتنا ہی ہے جتنا اپنے سگے بھائیوں شاہ نواز اور مرتضٰی بھٹو کے جدا ہو جانے کا ہے۔
Karachi
کیا بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک میں فروخت کرنے والے کسی ”ہوس زدہ ”کو اس کیفیت میں شمار کیا جاسکتا ہے جس کی حکمرانی اُن 650شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو انصاف نہ دے پائی جنہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں امن کی قیمت اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر چکائی جمہوریت تو ہر دور میں لاشوں کا تماشا رہی انسانیت کے نبض شناس شہید حکیم سعید کو بھتہ خور مافیا کے مذموم عزائم کی بھینٹ اسی سنگدل جمہوریت نے دانستہ چڑھایا ایک مجاہد غازی صلاح الدین کی اذاں کو خاموش کرادیا گیا قاتل دن دندناتے ہوئے خونی جمہوریت کی سر پرستی میں انسانیت کی پو شاک لہو سے تر کرتے رہے ،جمہوری ناخدا ان لاشوں کی بساط پر اپنی چالیں چلتے رہے محب وطن دانشوروں کا دامن تو اس سوچ میں اُلجھا ہوا ہے کہ نیٹو اسلحہ کے 19ہزار کنٹینرز زرداری دور حکومت میں روشنیوں کے شہر نے نگل لئے شہر قائد پر مسلط مافیا کا موقف ہے کہ ہم نے 92ء کا آپریشن بھگت لیا یہ بھی بھگت لیں گے مگر اس بار جمہوریت کی مصلحت مفلوج ہو کر رہ جائے گی جمہور کا قتل عام کرنے کیلئے مفاہمت کی جمہوریت قاتلوں کے جتھے پال کر تاریخ کے چہرے پر دھوکے اور فریب کی کالک ملتی رہی۔
کیا ایسا نہیں کہ پیپلز پارٹی آج جعلی قیادت کی غداریوں سے ثریا کی بلندیوں سے ذلت کی گہرائیوں میں جاگری ہے ؟ پھر بھلا ایسی جمہوریت جس کا منہ عوام کے لہو سے رنگین ہو کب تک جاری رہ سکتی ہے ؟ عوام ایسے نظام کو جو اُن کی زندگیوں کو بر باد کرنے تُلا ہو کب تک برداشت کر سکتے ہیں ؟اس جمہوریت کا ،اس نظام کا کہیں نہ کہیں تو The End بھی آنا ہے ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور زرداری نے اپنی پارٹی کی ماضی سے جان چھڑا دی ہے۔
زرداری کے اس نظریئے نے کہ ”ایم کیو ایم کو سندھ میں شریک اقتدار بنایا جائے” ایک ایسے وقت میں جب رینجر تمام سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر معصوم انسانوں کی جانوں کے ضیاع پر بند باندھنا چاہتی ہے یہ باور کرایا ہے کہ وہ انسانیت کے قاتلوں کے شانہ بشانہ ہے پیپلز پارٹی کی نظریاتی اکثریت کو باور ہو کہ اُس کی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کا باپ جنرل ضیاء کا دست راست تھا وہ اُن بھتہ خوروں کا سر پرست ہے جنہیں ضیاء کی آمریت نے جنم دیا اِسے نہ تو بھٹو کی پارٹی کا چہرہ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُس کی حقیقی قیادت کا نام دیا جاسکتا ہے۔
کیا محترمہ بے نظیر بھٹو اگر زندہ ہوتیں تو کراچی کے حالات یہ ہوتے ؟ ،کیا خونریزی کا دریا اس طرح بہتا ؟کیا مظلوم اور استحصال زدہ نظریاتی ورکرتبدیلی کی جدوجہد سے لاتعلق رہتے ؟کیا قاتلوں کی سر پرستی کرنے والا جمہوریت کا بھیانک کردار شہر قائد میں اِس طرح دندناتا ؟ ہرگز نہیں۔ جمہوری نا خدائوں کے مد مقابل پاک فوج نے تو ثابت کر دیا ہے کہ قائد اور اقبال کے پاکستان کی بقا کی جنگ اگر کوئی لڑ رہا ہے تو وہ پاک آرمی ہی ہے۔