حکومت اور فوج کا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ اچھا اقدام ہے یہ آپریشن اسی وقت شروع کردینا چاہیے تھا جب ان ظالموں نے ہمارے فوجی جوانوں کی گردنیں کاٹ کر شہید کردیا تھا بلکہ جس دن انہوں پاکستان کے اندر ایک اور پاکستان قائم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پہلا خود کش دھماکہ کیا تھا اسی وقت حکومت پوری قوت سے ان کے خلاف آپریشن کرتی تو آج ملک کو جو بدنامی اٹھانی پڑی اس سے بھی بچت ہوجاتی اور بہت سے بے گناہ افراد موت کے منہ میں جانے سے بچ جاتے مگر ان دہشت گردوں کے حامیوں نے وقت گذارنے کے لیے مذاکرات کا کھیل کھیلنا شروع کردیا۔
جسکے بعد اسلام آباد محفوظ رہا اور نہ ہی کراچی ان کی بزدلانہ کاروائیوں سے بچ سکا ویسے تو ہمارے ہر ادارے میں دہشت گرد موجود ہیں سیاست کے کھیل سے لیکر ایک عام سے ادارے تک میں ایسے ایسے افراد موجود ہیں جن کی دہشت سے شریف انسان کانپ جاتے ہیں جن کی موجودگی سے عوام کو انصاف مل سکتا ہے اور نہ ہی انہیں تکلیف سے نجات مل سکتی ہے۔
جنہوں نے لوٹ مار کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے جنہوں نے سرکاری دفاتر کو گھر اور گھروں کو دفتر بنا رکھا ایماندار شخص جو پاکستان بننے سے پہلے بھی غریب تھا اور آج بھی غربت کی دلد ل میں دھنسا ہوا ہے جبکہ اسکے مقابلہ میں ایک سرکاری ملازم عیش و عشرت میں زندگی بسر کررہا ہے عوام کے نام پر ووٹ مانگ کر اسمبلیوں میں جانے والے عوام کے پیسہ کو ہی لوٹ لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بناتے رہتے ہیں ایک محنتی اور ایماندار غریب انسان پاکستان میں رہتے ہوئے تمام عمر ایک مکان نہیں بنا سکتاجبکہ ہمارے سیاستدانوں اور سرکاری ملازموں نے بیرون ملک محل اور ہوٹل خرید لیے کیا۔
ان سے بھی کوئی بڑا دہشت گرد ہو گا کہ لوٹ مار نظر آنے کے باوجود کوئی قانون انکے خلاف حرکت میں نہیں آتا اور نہ ہی کسی میں اتنی جرات ہے کہ وہ ان سے پوچھ سکے کہ اتنی دولت کہاں سے آئی کیونکہ پوچھنے والے خودڈرپوک ہو چکے ہیں اور یہ ڈر ہماری رگوں میں اس لیے دوڑ رہا ہے کہ ہم خود ان دہشت گردوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں ہمارے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات ان سے وابستہ ہیں جو کبھی بھی پورے نہیں ہوتے صرف ایک لالچ کے چکر میں ہم سب ان کے بے دام غلام بنے ہوئے ہیں آپ کسی بھی بڑے سیاسی رہنماء کو دیکھ لیں کہ جن کے پاس اختیارات ہیں سب غلاموں کی طرح ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ لالچی جو ہیں کسی نے اگر وزیر بننا ہے۔
Pakistan
یا کوئی اعلی عہدہ لینا ہو تو پھر سرتو جھکانا ہی پڑے گا اور ان شہزادوں سے ملاقات کرنے کے لیے گھنٹوں انتظار بھی کرنا پڑے گا ہمارے ہاں ایسے ایسے کرداروں کو پروان چڑھایا جاتا ہے جن کے اندر کا گند چاپلوسی اور خوش آمد سے ڈھکا ہوتا ہے اور پھر وہی اندر کے گندے لوگ پاکستان اور پاکستانی عوام کو منہ کے بل لٹائے رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جون کے ان گرم دنوں میں عوام کا بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے برا حال ہے شہروں میں 12 گھنٹوں سے زائد لوڈ شیڈنگ ہے۔
تو دیہاتوں میں بجلی صرف نام کو رہ گئی ہے ہمارے سب سیاستدان اور سرکاری ملازم دفتروں میں بھی عوام کے ٹیکسوں پر ٹھنڈک کے مزے لے رہے ہیں اور گھروں میں بھی رات کو کمبل لے کرسوتے ہیں اور اپنی گاڑیوں میں جوسرکاری پٹرول استعمال کرتے ہیں وہ پیٹرول نہیں بلکہ اس غریب قوم کا خون ہے۔
جو وہ ٹیکسوں کی شکل میں ان تک پہنچاتے ہیں اپنا خون اور پسینہ ایک کرنے کے بعد بھی عوام جب ان کے دفتروں میں جاتی ہے تو وہاں پر کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا بلکہ ان ٹیکس خوروں کی دہشت اتنی ہوتی ہے کہ کوئی انکی مرضی کے بغیر کرسی پر بھی نہیں بیٹھ سکتا آپ یہاں پولیس کا نظام دیکھ لیں کسی دور دراز کے دیہاتی تھانے میں چلے جائیں وہاں کا ماحول ہی آپ کو حیران اور دہشت زدہ کردیگا فرعون صفت پولیس ملازمین کی دہشت کا یہ حال ہو گا کہ ایک شریف انسان تھانے جاتے ہوئے ڈرتا ہے۔
جبکہ رسہ گیر اور منشیات فروش اپنے علاقے کے تھانے کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں جن کی وجہ سے تھانے میں جشن کا سماں ہوتا ہے کیونکہ انکی لوٹ مار سب مل بانٹ کرکھاتے ہیں اور ہمارے سیاستدانوں کے یہ چہتے ہوتے ہیں کیونکہ انکی مرضی کے بغیر پاکستان میں کوئی عہدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا اور جو عوام سے ووٹ لیکر عوام کو انکے حق سے محروم کردے تو انکے چہیتوں سے خیر کی امید بھی نہیں رکھی جاسکتی ایسے لوگ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کا ساتھ دینے والا بھی دہشت گرد ہی ہے کیونکہ وہ ان کی دہشت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جسکی وجہ سے آج پاکستان میں دہشت گردوں کا راج ہے پاکستانی فوج نے ایک دہشت گردوں کے خلاف تو اعلان جنگ کرکے آپریشن شروع کردیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ جوسیاسی جماعتوں اور اداروں میں معاشی دہشت گرد موجود ہیں جنہوں نے لوٹ مار کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کررکھا ہے ان کے خلاف کون آپریشن کرتا ہے تاکہ ہم معاشی طور پر بھی مستحکم ہوکر غربت کے اندھیروں کوکہیں دور دفن کرسکیں۔